ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ہم سب مولوی کے بارے میں خاص قسم کا تعصب روا رکھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ویل مینرز اور تہذیب و شائستگی کے اطوار سے شناسائی تو صرف ’’غیر مولوی‘‘ افراد ہی رکھ سکتے ہیں۔ مولوی کا مینرز ازم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس لیے ہم مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے سے ڈرے ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ خالصتاً مولویوں کا دھرنا تھا۔ ہمیں خدشہ تھا کہ مدرسوں کی حبس زدہ فضائوں سے نکل کر مدرسوں کے طالب علم اگر اسلام آباد کی ماڈرن فضائوں میں آ گئے تو نہ جانے حشر اٹھا دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی تھی ہمارے تجزیے اور تبصرے، بس انہی خدشات کے گرد گھوم رہے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ مدرسوں کے پڑھے ہوئے شہر اقتدار کی طرف گامزن ہیں، جتھے کے جتھے۔ قافلہ در قافلہ۔ ہم ان مولویوں سے خوف زدہ بھی تھے اور ان کے حلیوں کی بنیاد ان کا مذاق اڑاتے، ان کی تضحیک کرتے تھے کیونکہ ہم خود کو مولویوں کے مقابلے میں زیادہ پڑھا لکھا، جدید اور روشن خیال سمجھتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شہر اقتدار میں احتجاج اور دھرنے کا حق تحریک انصاف کے پڑھے لکھے، روشن خیال، ممی ڈیڈی قسم کے لوگوں کو تو دیا جا سکتا ہے لیکن مردان، بنوں، ھنگو، ڈیرہ اسماعیل خان کے دور دراز پسماندہ شہروں کے مدرسوں میں پڑھے ہوئے مولوی کو اس کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ کہاں انصافیوں کا ماڈرن کرائوڈ، یونیورسٹیوں کے ڈگری یافتہ، پڑھے لکھے، روشن خیال، ہینڈسم اور گلیمرس کپتان کے فالورز اور کہاں پگڑیوں والے، ٹخنوں سے اونچی شلواریں باندھنے والے صافے کندھوں پر لٹکائے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے ماننے والے مدرسوں کے مولوی! سو سیدھی اور سچی بات یہی ہے کہ ہم اس مولویانہ دھرنے سے شدید خوف زدہ تھے۔ اسلام آباد کے شہریوں کے خدشات کچھ اور قسم کے بھی تھے کہ گزشتہ دھرنے میں لوگ بریانی کی ڈسپوز ایبل پلیٹس اور جوس کے خالی ڈبے کوڑے کی ٹوکریوں میں ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے تھے سو ہزاروں کے مجمع سے جب یہی حرکت کرتا کوڑے کے ڈھیر لگنا یقینی تھے۔ اس پر صفائی کا کوئی انتظام نہ ہونا یوں قیامت ڈھا گیا کہ چند ہی ہفتوں میں کوڑے کے ڈھیر جگہ جگہ لگے اور ان سے تعفن اٹھنے لگا۔ یہ حال چونکہ ماڈرن اور روشن خیال دھرنے والوں کا تھا تو اسی تناظر میں اسلام آبادی، مولویانہ دھرنے سے زیادہ ہی ڈر گئے نجانے یہ مولوی اب ہمارے شہر کا کیا حال کریں گے۔ لیکن صاحبو! اس دھرنے میں جو کچھ اب تک ہوا یا جو کچھ کیمرے کی آنکھ سے اور عینی شاہدوں نے اب تک اس دھرنے میں دیکھا وہ نہ صرف حیران کن تھا بلکہ انتہائی متاثر کن تھا۔ مدرسے کے طالب علموں کا جو امیج ہم نے بنا رکھا تھا۔ وہ دھڑام سے زمین پر آ رہا۔ ہمارے سامنے تو ایک ہی منظر تھا۔ احساس ذمہ داری، منظم رویوں اور شائستگی کی بے مثال تصویر ہمارے سامنے تھی اور ہمیں بارہا اس پر یقین نہیں آتا تھا کہ ہزاروں کے مجمع میں ایمبولینس کو راستہ دینے والے، قطاروں میں بیٹھنے والے، دھرنے کی جگہ کو روزانہ جھاڑو دے کر صفائیاں کرنے والے، منظم اور احساس ذمہ داری سے مالا مال یہ لوگ مدارس سے پڑھے ہوئے مولوی ہیں۔ ہمارے آنکھوں کے لیے یہ منظر بھی نیا تھا کہ انسانوں کا ایک سمندر محو سفر ہے۔ لاہور کے گنجان ترین سڑکوں سے گزر رہا ہے۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے مولوی انتہائی پرامن ہے۔ دکانیں کھلی ہیں، کاروبار ہو رہا ہے۔ میٹرو بس اپنے شیڈول کے مطابق رواں دواں ہیں۔ ہزاروں کا مجمع گزر رہا ہے مگر کوئی گملا بھی اس احتجاج میں نہیں ٹوٹتا، پھر یہ بھی ایک انوکھا، ایک کمال منظر تھا کہ ایمبولینس گزر رہی ہے اور مولوی احساس ذمہ داری کا شاندار مظاہرہ کرتے ہیں۔ ترتیب اور منظم رویے کا عکس واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب مجمع آہستہ آہستہ جگہ چھوڑتا جاتا ہے اور ایمبولینس سہولت سے احتجاجیوں کے عین درمیان سے گزر کر مریض کو ہسپتال لے جاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں سے ایسی شائستگی اور احساس کی توقع نہیں رکھتے۔ کجا کہ وہ مولوی ہوں اور احتجاج پر ہوں۔ ہمیں یاد ہے گزشتہ دھرنوں اور انصافیوں کے احتجاجی لاک ڈائون میں کیا کیا ہوا تھا۔ ایمبولینسوں میں مریض تڑپتے رہے لیکن ان کو راستہ نہ دیا گیا۔ پورے پاکستان کو لاک ڈائون کرنے جیسے غیر جمہوری ہھتکنڈے استعمال ہوئے، عورتیں، بزرگ، بچے جگہ جگہ بندشوں کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوئے۔ میں نے مولانا فضل الرحمن کے حق میں شاید ہی کبھی لکھا ہو۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا کی کارکردگی پر ہمیشہ میں نے سخت الفاظ میں لکھا۔ اقتدار کی چراگاہ سے اپنا حصہ وصول کرنے کی طرز سیاست کو بھی ہمیشہ ہدف تنقید بنایا لیکن دیانتدارانہ بات ہے کہ اگر آج اگر شہر اقتدار میں انسانوں کا سمندر پرامن ہے اور مارچ سے دھرنے تک احتجاج میں ایک نظم، تربیت، امن دکھائی دے رہا ہے تو اس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن ہی کو جاتا ہے۔ وہی فافلے کے سالار ہیں۔ دنیا ان کے پرامن احتجاج کی تعریف کر رہی ہے۔ مولانا نے پاکستانیوں کو بتایا کہ جمہوری حدود میں احتجاج کا حق کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ’’ہم پرامن لوگ ہیں۔ آئین کی حدود میں رہیں گے‘‘ یہ الفاظ دہرا کر وہ ہزاروں کے مجمع کو باور کرواتے ہیں کہ برداشت، آئین پاسداری، جمہوری حدود میں رہنا ہے۔ نہ وہ چیختے چنگھاڑتے ہیں۔ زہریلی اور نفرت انگیز زبان جو مجمع میں آگ لگا دے۔مولانا اس سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس کا کریڈٹ ان کو ضرور دینا چاہئے۔ اس کے برعکس عمران خان اور طاہرالقادری کا دھرنا بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ بے ترتیبی، الجھائو بکھرائو اور بہت کچھ! مولانا! ہم سب آپ کے شکرگزار ہیں پرامن احتجاج کی یہ عظیم الشان Demonstration دیکر آپ نے ہمیں یہ بتا دیا کہ دھرنا پرامن بھی ہوتا ہے اور یہ کہ مدرسوں سے پڑھے ہوئے مولوی، جو یونیورسٹیوں کے ڈگری یافتہ لوگوں سے زیادہ حساس اور منظم ہوتے ہیں۔ وہ ایمبولینسوں کو راستہ دے دیتے ہیں۔