گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا وہی گھسی پٹی بات مگر آج کیفیت ایسی لگتی ہے کہ یہی دل کے قریب لگتی ہے۔ اے نگار وطن تو سلامت رہے۔ان دنوں مرے وطن پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے ملازمت چھوڑنے سے پہلے ملک کے سربراہ کے خلاف شدید الزامات لگانا تھا۔ پھر موقع ملنے پر ان کی تائید کرنا تھی۔یہی نہیں بلکہ صاف کہنا تھا کہ مجھے کار سرکار میں من مانی کرنے کے لئے کہا جاتا رہا ہے۔ بشیر میمن کے انکشافات معمولی نہیں ہے۔ جب وہ ریٹائرمنٹ کے چند دن پہلے چھٹی پر جانے پر مجبور کئے گئے تو اس وقت ہی ان سے منسوب بہت سی باتیں آ گئی تھیں اور اب تو انہوں نے کوئی کمی نہ چھوڑی۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جو آئینی ادارے ہوتے ہیں وہ غیر جانبدار ہوتے ہیں مگر اب جو اندر کی کہانی سامنے آئی ہے وہ تو ہوشربا ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے کہا گیا فلاں کو پکڑو‘ فلاں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنائو۔ میں نے کہا‘ شہزادہ محمد بن سلمان جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے‘ میں کیوں نہیں کر سکتا۔ جواب آتا ہے وہ شہزادہ ہے‘ آپ منتخب حکمران ہیں۔ہمارے حکمرانوں کے جو آئیڈل بنتے ہیں وہ ان کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی طاقت کی وجہ سے حتیٰ کہ مائوزے تنگ سے لے کر ہوچی منہ‘مہاتیر محمد سے لے کر سارے وہ حکمران جو اپنی طاقت کے لئے معروف رہے، ہمارے لیڈروں میں اس لئے مقبول رہے کہ وہ جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔اس کا البتہ ایک الگ پس منظر ہے۔ آپ مائوزے تنگ کا مقابلہ اپنی قیادت سے کر سکتے ہیں۔ ایشیائی ٹائیگر اپنی منہ زور طاقت کی وجہ سے مشہور نہ تھے بلکہ اپنے انداز حکمرانی اور اس کے نتیجے میں دیے گئے مثبت نتائج کی وجہ سے مقبول تھے۔ ہمارے وزیر اعظم کو جب شہزادہ محمد کا خیال آیا‘بلا شبہ اس وقت وہ ان کی گاڑی چلاتے تھے‘ ان کے جہاز پر امریکہ جاتے تھے۔پھر واپسی پر یہ جہاز ان سے واپس بھی لے لیا جاتا تھا۔ اس وقت شہزادہ اپنی شہزادگی کے عروج پر تھے۔ ترک سفارت خانے میں سعودی صحافی کا قتل بھی ہو چکا تھا۔ امریکی صدر ان کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا چکے تھے۔ دنیا ان کے لئے مشکل بلکہ تنگ ہوتی جا رہی تھی حتیٰ کہ ان کے پسندیدہ امریکی صدر ٹرمپ کو یہ تک کہنا پڑا ہم اسلحے کا اتنا بڑا سودا خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ٹرمپ کے جانشین کو سو پابندیاں لگانا پڑیں۔ اسے یہ تک کہنا پڑا کہ اب ہم صرف بادشاہ سے بات کریں گے۔ وہ شہزادہ تو ایران کا نام سننے کو تیار نہ تھا۔ اب ایران سے دوستی پر آمادہ ہے۔دنیا اتنی آزاد منش نہیں ہے۔دنیا کی طاقت ور معیشت کے مالک شہزادے کو بہت کچھ بدلنا پڑا ہم اتنے طاقتور نہیں کہ یوں ڈٹ جائیں اور دنیا ہمیں کچھ بھی نہ کہے ۔بہت کچھ بدل چکا ہے اور مزید بدل رہا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اپنے اقدامات کی پشت پر بہت کچھ تھا مگر پھر بھی بات بن نہ پائی اور شاید ساری زندگی شہزادے کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے۔ آپ چین کی تاریخ سے مثالیں دینے لگیں تو آپ کو پھر بھی مشکلات نہیں آئیں گے۔ میں نے مائوزے تنگ ہی نہیں‘ اس سے پہلے اور بعد کی چینی تاریخ کا مطالعہ بہت قریب سے کیا ہے ۔سن یات سن سے لے کر چیانگ کائی شیک تک۔ مائوزے تنگ سے لے کر چواین لائی‘ اورموجودہ چن ژی کی عظمتوں کو پرکھا ہے۔ کون کن کن انقلابی مراحل سے گزرا ہے۔یہ سب بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔ میں نے چین کی صدیوں کی تاریخ کو بھی پرکھااور جانچا ہے۔ میں نے ان خطوں میں پلنے والی بیورو کریسی کو بھی پرکھا ہے‘ مجھے اندازہ ہے کہ یہاں تبدیلی کا عمل کیسے پروان چڑھتا رہا ہے۔یہ کسی کنج میں بیٹھ کر خواب دیکھنے سے عمل میں نہیں آیا کرتی۔گھر بیٹھ کر مریم نواز کو دہشت گرد قرار دینے کے حکم سے نہیں جنم لیا کرتی ۔ہر تہذیب کی اپنی اخلاقیات ہوا کرتی ہے وہ تہذیب اس اخلاقی حرکیات کے اندر رہ کر کام کرتی ہے اور اگر قیادت مخلص ہو تو امکانات کے در کھلنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں افسر شاہی کی ایک تاریخ ہے۔ ہم نے بہت بیوقوفی کی کہ ہر بار نعرہ لگایا کہ انگریز کے لگائے اس پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو۔ہم نے کہنے کو تو آئینی عہدے قائم کئے مگر انہیں پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ کبھی سی بی آر سے کہا کہ فاضل جج کے خلاف مقدمات بنائو اور اس جج کی شان میں یہ کہہ کر گستاخی کی کہ یہ انڈر ٹرائل جج ہیں ہم نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔ یہ گویا انصاف کا گلہ کاٹنے کے مترادف تھا۔آئینی عہدہ کا تقدس باقی نہ چھوڑا۔ کسی عہدے دار کو ہٹانا ہوا تو اس کی مدت ملازمت چار سال سے کم کر کے راتوںرات دو سال کر دی اور یوں اس کی چھٹی کرا دی۔عدالتی نظام دیکھتا رہ گیا‘آئینی ادارے منہ چڑاتے رہ گئے۔ اس ملک میں بیورو کریسی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔ ایسے لگتا تھا ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ انگریز کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ معلوم ہوا ایسا نہیں یہ ہمارے انتظامی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ہم نے جب بھی اس انتظامی سسٹم میں تبدیلی کرنا چاہی اسے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ گویا یہ کرپٹ ہے۔ ہم نے ضلعی نظام تلپٹ کیا ۔بھٹو نے 73,72ء میں نیا نظام لانا چاہا صرف اس سہولت کے لئے کہ وہ من مانی کر سکے۔نتیجہ پہلے والا نظام بھی تباہ ہو گیا مشرف نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اب بار بار ثابت ہو رہا ہے کہ ہمیں اصلاحات کرنا بھی نہیں آ ئیں۔ آج بھی انتخابی اصلاحات میں تبدیلی کا طبل بجایا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے ہمیں یہ کام بھی نہیں آتا۔ ہمارے ہاں ایوب خاں ‘ الطاف گوہر کو سیکرٹری داخلہ بنانا چاہتے تھے مگر اس لئے نہ کر سکے کہ سنیارٹی کا معاملہ تھا۔ اس وقت تک الطاف گوہر قائم مقامی سیکرٹری اطلاعات رہے جب تک وہ مطلوبہ حد تک سینئر نہ ہو گئے۔ ان دنوں بیورو کریسی کو جس انداز سے استعمال کیا گیا گویا یہ دست سرکار میں تازیانہ ہو۔ جمہوریت میں ایسے ہوا نہیں کرتا۔جن حکمرانوں کو عوام اور رعایا کا فرق معلوم نہ ہو‘ شہزادگی اور عوامی حکمرانی کا فرق نہ سمجھتے ہوں اور یہ اندازہ نہ ہو کہ وہ دنیا میں کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے‘ اب اگر وہ یہ زعم بھی رکھتے ہوں کہ مرے فلسفے کے مطابق یوں ہونا چاہیے‘یوں نہیں‘ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اے نگار وطن تو سلامت رہے۔