گذشتہ شام مرکزی اور صوبائی رئویت ہلال کمیٹیاں ،تلاشِ بسیار کے باوجود ،رمضان المبارک کے چاند تک نہ پہنچ سکیں ،اور یوں آج شعبان المعظم کی 30تاریخ ہے…یہ ’’تلاش بسیار‘‘ تومیں نے رسماً ہی کہہ دیا، وگرنہ اس مہینے کے 30دنوں کے سبب ہی تو…’’انتیس کی عید‘‘ کا امکان ابھی سے روشن… بلکہ روشن ترہونے کو ہے ۔ بصورتِ دیگرپھر عید کے لیے پسنی ،جیوانی ، گوادر… اورنہ جانے کہاں کہاں سے رات گئے تک، شہادتوں کی وصولی کااہتمام کرنا پڑتا ہے ۔یادش بخیر ! ریڈیو پاکستان لاہور کی قدیم عمارت کی چھت پر ’’عید کا چاند دیکھنے کیلیے ‘‘ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا خصوصی اجلاس ، ایک عرصے تک ہوتا رہا۔1998ء میں جبکہ رمضان سخت سردی میں تھا، افطار کا اہتمام مناسب نہ ہونے پر ،ممبران کمیٹی ایسے ناراض ہوئے ،کہ وزیر اعظم پاکستان کومداخلت کرنا پڑی ،اور یوں عید کا اعلان ممکن ہو ا۔ویسے بھی پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یا ریڈیو والے علما ء اور مذہبی شخصیات کے اعزاز و اکرام کو اس طرح ملحو ظ نہیں رکھ سکتے ،جس طرح اوقاف ومذہبی امور۔چنانچہ دو سال قبل جب ایوان اوقاف لاہور میں عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام ہوا ،تو’’ انتیس کے چاند ‘‘ کے خدشے کے پیش نظر ، پنجاب گورنمنٹ نے جناب چیئر مین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو کراچی پہچانے کے لیے’’ خصوصی طیارہ ‘‘ فراہم کیا تھا جبکہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے فاضل ممبران کی ترسیل کو بھی رات گئے تک یقینی بنایا گیا ،تاکہ عید کی نماز کی امامت اپنے آبائی اداروں میں فرما سکیں ،اگر چہ ہماری کمیٹی ،اس امر کو دخل اندازی تصور کرتی ہے کہ محکمہ موسمیات اور ہمارے میٹرو لوجسٹ اپنی رصد گاہوں سے موصولہ اعدادو شمار اور اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کوئی خیال آرائی فرمائیں۔تاہم …ریجنل ڈائریکٹر موسمیات اجمل شاد اپنے کا م میں مہارت رکھتے ہیں ،اگرچہ ہمار ا سرکاری کیلنڈر تو شمسی یا عیسوی ہی ہے، تاہم جملہ عبادات کا نظام الاوقا ت اوراوقاف کے زیر تحویل مزارات کی سالانہ تقریبات کے لیے قمری کیلنڈر یعنی اسلامی مہینوںکی پیروی ہی کرنا ہوتی ہے ،چنانچہ ایسی صورتحال میں ہم اپنے مذکورہ دوست سے قبل از وقت ہی ’’کنفرمیشن‘‘ لے لیتے ہیں ،اور معلوم کر لیتے ہیں کہ عاشورہ--- انگریزی کی کس تاریخ کو --- اور داتا صاحب ؒ کا عرس شمسی حساب کے مطابق…کب ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔محکمہ موسمیات کی ملک بھر میں سو سے زائد رصدگاہیں (Observatories)ہیں ،جن میں 41صرف پنجا ب میں ہیں ،جہاں سے چاند اور سورج کے طلوع وغروب سمیت موسمیات کے جملہ معاملات ہمہ وقت ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں ۔ بہر حال میڑولوجسٹ اور ڈائریکٹر موسمیات ہر ماہ رئویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں اپنے ’’منظم اور مربوط اعدادو شمار ‘‘کے ساتھ شرکت کرتے، جس میں چاند کی رئویت اور عدم رئویت کے حوالے سے وہ بہت ’’Calculated‘‘ ہوتے ہیں ، تاہم ایوانِ اوقاف کی آٹھویں منزل پران کی طرف سے دور بین کی آراستگی…بہر حال اس روایت کا ایک اہم اور قدیم حصہ ہے ، کہ جس کے بغیر چاند کا تحقق ممکن نہیں ہوتا ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رصد اور فلکیات کے صدیوںپر محیط تجربات ومشاہدات کو سرے سے نظر انداز کردیاجائے ۔ اس لیے کہ ہم نے طویل عرصے سے، طلوع وغروبِ آفتاب ، زوال اور طلوعِ فجر وغیرہ کے لیے اسی علمِ رصد پر اعتبار کرتے ہوئے ،دائمی اوقات ناموں کواپنی مساجد میں آویزاں کررکھاہے ، بہر حال یہ باتیں ایسے ہی ضمناً چل نکلی… امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ انتیس کی عید کے روشن امکانات کے ساتھ ، ماہِ رمضان المبارک کا آغاز ،آج شام پورے تزک واحتشام اور عقیدت واحترام کے ساتھ ہوگا ۔ یہ وہ ماہِ سعید ہے ،جس کا نبی اکرم ﷺ کو انتظار رہا اور آپﷺ اس کا استقبال نہایت تپاک اور اشتیاق سے فرماتے ،اور فرط محبت سے ماہِ شعبا ن میں ہی پکارتے :’’اے اللہ ! شعبان میں ہمارے لیے برکتیں لکھ دے اور رمضان نصیب فرما‘‘اوراپنے ہاتھ فضائو ں میں بلند فرماتے ہوئے یوں بھی دُعا گو ہوتے : اَلَّلہُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالِایْمَانِ والسلامۃ وَالْاِسْلام یعنی اے اللہ !ہم پر یہ چاند امن وایمان اورسلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما ۔ آج ہی کے دن نبی اکرم ﷺ اپنے فرامین اور احکام کے ذریعے ، اپنی اُمت کو اس ارشاد کیساتھ مہمیزبھی دیتے ۔ ’’ اے نیکی کے طلب گار …آگے بڑھ ۔ ‘‘ رمضان المبارک یقینا تما م مہینوں سے افضل ہے ،احادیث میں اسے ’’سیّد الشہور‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اس بابرکت ماہ میں…دلوں کو آسودگی ،فکر کو پاکیزگی اور ایمان کو تازگی میسر آتی ہے۔ مساجد کی رونقیں دوبالا اور گھروں کا ماحول بابرکت اور پُر رونق ہوجاتا ہے ۔ روزمرہ کے طرز عمل اور روّیوں میں مثبت تبدیلی آتی اور قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ہر شخص سبقت لے جانے کی فکر میں کوشاں نظر آتا ہے ۔ آج ہی کا دن …وہ روزِ سعید ہے ،کہ جب مسجد نبوی کے منبر پر جلوئہ گرہوکر ،نبی اکرم ،رسولِ محتشم ﷺ نے اپنا وہ عظیم اوربلیغ خطبہ ارشاد فرمایا ،جس کو معتبر کتب حدیث میں ،حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔:جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّہٗ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَہْرٌ عَظِیْمٌ شَہْرٌ مُبَارک…اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایۂ فگن ہورہاہے ۔ جس میں ایک رات ایسی ہے ،جو ہزار مہینہ سے افضل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں اوراس کی راتوں کے قیام کو باعثِ اجر بنایا ہے ۔ جس نے اس میں بھلائی کا نفلی کام کیا ، گویا اس نے ایک فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا،گویا اس نے دوسرے مہینے میں 70فرض ادا کیے ۔آپ ﷺنے مزید ارشاد فرمایا: وَھُوَ شَھْرُ الصَّبْر …یعنی یہ صبر کا مہینہ ہے ، اور صبر کی جزأ جنت ہے ، وَھُوَ شَھْر الْمُوَاسَات…یہ مواسات اورباہمی ہمدردی اور غمخواری کامہینہ ہے ،اس میں مومن کا رز ق بڑھا دیا جاتا ہے ،جس کسی نے کسی کا روزہ افطار کروایا ، تویہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے ،اس کو روزہ دار کی مانند ثواب ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔خطبہ کے آخری حصے میں آپ ﷺ نے فرمایا:وَھُوَ شَھْرٌ اَوَّلَہٗ رَحْمَۃٌ… یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور آخری جہنم سے آزادی کاہے، جس نے اس مہینے مں اپنے مملوک (غلام ،زیردست ،ملازم) سے نرمی کا رویہ اختیار کیا ،اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے گا اور اُسے جہنم سے آزادی نـصیب فرمائے گا ، تم اس مہینے میں چار کام کثرت سے کرو، اُن میں سے دو کام ایسے ہیں ،جن کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو، اور دو کام وہ ہیں، جن سے تم بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔وہ دو کام جو تم اپنے رب کی رضا کے لیے کر و پہلا یہ کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور دوسرا یہ کہ تم اس سے بخشش مانگو ،اور وہ دو کام جن سے تم بے نیاز نہیں ہوسکتے ان میں سے پہلا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور دوسرا یہ کہ تم آگ سے پناہ مانگو۔