6جون کی رات چھ سات محب وطن اینکر حضرات کی زبانی پتہ چلا کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ بزمِ یار سے آنے والے ان سبھی کی اطلاع یہ بھی ایک تھی اور مضمون بھی ایک ،یہاں تک کہ ترتیب بھی وہی تھی۔صرف الفاظ کی نشست و برخاست میں فرق تھا۔ یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ سبھی محب وطن ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ ایک ہی طرح کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ شاعری میں خیال و لفظ کی اس یک جانی کا مشترکہ ہونا ’’توارد‘‘ کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ ایک سائنسی عمل ہے۔ جملہ خیالات و افکار عالیہ کی ترسیل سیارہ عطارد سے ہوتی ہے اور کائنات ساری کی ساری کمپیوٹرائزڈ ہے چنانچہ ذرا سے ’’ایرد‘‘کی وجہ سے بیک وقت دو شاعروں پر ایک شعر نازل ہو جاتا ہے۔ اب سائنس، کمپیوٹر سائنس اور سائبر کنکٹیویٹی بہت بڑھ گئی ہے تو توارد کی لپیٹ میں دو سے زیادہ، پانچ چھ سات بلکہ آٹھ دس مفکرین بھی آ سکتے ہیں۔ ٹوئٹر پر تو یہ توارد حیرت انگیز حد تک بڑھ جاتا ہے۔ دس دس بارہ بارہ محب وطن ایک ہی کو اپنے نام سے ٹویٹ کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ سیارہ عطارد ہے کہاں؟ جاننے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کہتے ہیں ہمارے ہی نظام شمسی میں کہیں موجود ہے۔ ٭٭٭٭٭ تحریک تو چلنی ہے اور چلے گی لیکن اپوزیشن کو احتیاط سے بھی تو چلنا ہے۔مریم نواز نے اشارہ دیا تھا کہ ہماری جنگ عمران خان سے نہیں ہے۔ ایک اشارہ بلاول نے بھی دیا کہ ہم نے پارلیمنٹ کو بچانا ہے۔ محب وطن اینکر برادری دو مہینے سے یہ خبرداری دے رہی ہے کہ تحریک چلی تو نظام کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ اس چنائوتی کا اپوزیشن کو پہلے ہی پتہ ہے؛ چنانچہ اسے بچ بچ کر چلنا ہے لیکن تحریک تو بہر طور چلے گی اسے چلنا ہی ہے۔ کسی بھی شکل میں، شروع میں آہستہ اور پھر سبک رفتار۔ اپوزیشن کے ارادے واضح ہیں تو وزیر اعظم نے بھی اپنی سوچ کھل کر بتا دی۔ بجٹ منظوری کے بعد ایوان میں انہوں نے فرمایا کہ ایسی اپوزیشن کو خطاب کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایسی اپوزیشن تو ایوان میں ہونی ہی نہیں چاہیے۔ ایسوں کے تو بیانات بھی ٹی وی اخبارات پر آنے نہیں چاہئیں۔ پی ٹی آئی کے ارادے صرف یہاں تک ہی نہیں ہیں۔ ان کے ایک لیڈر مستقبل کا لائحہ عمل اپنی ’’خواہش‘‘ کی صورت میں بیان فرما چکے، کرپٹ عناصر کو پہلے گاڑیوں سے باندھ کر گھسیٹا جائے پھر پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور پھانسی گھروں میں نہیں، چوراہوں پر۔ ایسی اپوزیشن سے وزیر اعظم کی مراد کرپٹ اپوزیشن ہے اور تحریک کے لیڈر کا اشارہ بھی اپوزیشن کی طرف ہے۔ ان کا ’’ماڈل‘‘ شمالی کوریا جہاں عظیم رہنما کے خیالات سے اختلاف یا انحراف کرنے والے کو ’’کرپٹ‘‘ قرار دے کر گولی سے اڑا دیا جاتا ہے۔ آئے دن ایسی خبر آتی ہے اور دنیا بھر میں ہر ایک جانتا ہے کہ کرپشن کا الزام تو محض ایک ہتھیار اور بہانہ ہے۔ اصل جرم کچھ اور ہے۔ ہمارے عظیم رہنما کے سامنے شمالی کوریا سے بھی آگے کی سوچ ہے۔ صرف پھانسی نہیں، پھانسی سے پہلے گھسیٹا جانا بھی ضروری ہے۔ ’’بے آب‘‘ ہوتا جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ کرپشن کے الزام کا ہتھیار۔ سب پر ہر بات روشن ہو گئی، لیکن ڈیڑھ سال پہلے جب پانامہ ایکشن پلان ان رول ہوا تھا تو ایک تعداد لوگوں کی تبھی سمجھ گئی تھی کہ معاملہ کیا ہے۔ اس موقع پر خصوصی ’’دستور‘‘ نافذ ہوا کہ بے گناہی نواز شریف نے ثابت کرنی ہے۔ رسیدیں انہوں نے دینا ہیں، نیب نے کچھ بھی ثابت نہیں کرنا (اور اس نے کچھ بھی ثابت نہیں کیا)۔ انصاف والوں کو برسراقتدار آئے سال ہونے کو آیا، پانامہ والے الزامات میں سے ایک بھی ثابت ہوا نہ ثابت ہونے کا امکان ہے۔ نواز شریف کو دو سزائیں ہو گئیں لیکن لوٹی دولت کا قصہ بدستور ناتمام ہے، واپسی کا تو خیال ہی شامل محالات ہے(سنا ہے، اب پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ بارثبوت نیب پر ہے) اب یہ بھی حسن کارکردگی پر نقاب کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ یعنی ہم کیا کر سکتے ہیں، سارا پیسہ تو منی لانڈر ہو گیا۔ یہاں تک کہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ بھی ماضی کی کرپشن ہے۔ وزیر اعظم نے تیسری بار اس امر کا کریڈٹ لیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم ہائوس کے 33فیصد اخراجات کم کر دیئے ہیں اور قوم کی خاطر قربانی دی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بائیس کروڑ افراد میں سے ہر ایک فرد اپنا حصہ ’’قربانی‘‘ میں ڈالے، گزشتہ روز ایوان میں بھی میاں حماد اظہر نے یہی بات کی تھی۔ حنا ربانی کھرنے بجٹ کی سرکاری کتاب کھول کر سپیکر کو دکھائی جس کے مطابق وزیر اعظم ہائوس کا بجٹ ایک ارب 18کروڑ 18لاکھ کر دیا گیا ہے یعنی 18.1فیصد اضافہ۔ سپیکر نے فرمایا، بجٹ کتاب میں غلط لکھا ہے۔ مطلب صحیح لکھا وہ ہے جو وزیر اعظم اور میاں صاحبزادے کی کتاب میں لکھا ہے۔ اس الجھن کی سلجھن کیا ہو سکتی ہے؟ موجودہ حکومت آئن سٹانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ممکن ہے انہی میں سے کسی نے کوئی نئی مساوات Equationنکالی ہو۔ یعنی یہ کہ: 18.1فیصد اضافہ مساوی ہے 33فیصد کمی کے… ٭٭٭٭٭ رمضان کے بعد سے چینی کے نرخوں میں گیارہ روپے کلو اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی یہ سفر ختم نہیں ہوا جاری ہے۔ رمضان گزرے ایک مہینہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ چینی کہیں 75، کہیں 78اور کہیں کہیں 80روپے کلو بک رہی ہے۔ لگتا ہے، ڈالر کی طرح چینی کو بھی فری فلائٹ کا اختیار مل گیا ہے۔