زینب الغزالی اخوان المسلمون کی تاسیسی ممبر، شعبہ خواتین کی چیئرپرسن اور مصر کی عظیم مفسرہ اور مجاہدہ خاتون تھیںجن کی ساری زندگی جد وجہد اور عزیمت سے عبارت ہے۔جادہ حق میں جس طرح کے آلام ومصائب انہیں درپیش تھے اسی طرح پاکستان کی عظیم سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جنہیں امریکی (CIA)نے 2003 ء میں اغوا کر کے قیدی نمبر650کے نام سے امریکہ میں جبرا قید کیا ہوا ہے مصائب وآلام کی شکارہیںحتیٰ کہ انکے حوالے سے کسی بھی معتبراورمصدقہ ذرائع سے پتانہیں چل رہا آیاوہ زندہ بھی ہیں یا شہید کر دی گئیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے گزشتہ 30 برسوں کے دوران سفاک بھارتی فوج نے ایک لاکھ سے زائدکشمیرکے فرزندان توحید کو شہید کردیاان میں 3,422خواتین شامل ہیں۔ درندہ صفت بھارتی فوجیوں نے اس دوران 22,411 خواتین سے بدتمیزی کی جبکہ 92,322 خواتین کو بیوہ کیا گیا۔ قابض فوجی کشمیریوں کی جاری آزادی کی جدوجہد کو دبانے کیلئے باقاعدگی سے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ اگرچہ مردوں کو لاپتہ کیا گیا تھا، لیکن خواتین لاپتہ افراد سے ماں، بیویاں، بہنوں اور بیٹیوں کی حیثیت سے منسلک ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ۔ مقبوضہ علاقے میں بھارتی پولیس اور فوجیوں کے ذریعہ ہونے والے تشد د کی وجہ سے ایک لاکھ سے خواتین ذہنی مریض بن گئی ہیں۔ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت آدھی درجن سے زیادہ خواتین گزشتہ چار برسوں سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میںاسیرہیں جبکہ انشا طارق جان، حنا بشیر بیگ، حسینہ بیگم اور نسیمہ بانوجو شہید توصیف احمد شیخ کی والدہ ہیںمختلف جیلوں میں بند ہیں۔ سفاک بھارتی فوجی اہلکار کشمیریوں کو دبانے کے لئے علاقے میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں جوصرف اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری اور سانحہ شوپیاں سمیت خواتین کے خلاف عصمت دری، قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر واقعات اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ 4جنوری 2018ء کو آسیہ اندرابی کواس وقت گرفتارکرلیاگیاجب وہ کئی ماہ جیل میں گزار کر رہا ہوئی تھیں۔گرفتاری کے بعدانہیں سری نگرسینٹرل جیل منتقل کیاگیاجبکہ6جولائی 2018 ء جمعہ کو دہلی کے تفتیشی ایجنسی (NIA)نے کشمیرکی بہاد ربیٹی،خواتین کشمیرکی تنظیم دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی اور ان کی دو قریبی ساتھیوں ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ کو ایک فوجی طیارے کے ذریعے سری نگرسینٹرل جیل سے نئی دہلی منتقل کردیا جہاں کی ایک خصوصی عدالت نے تینوں کو ریمانڈ پر این آئی اے کے حوالے کردیاگیا۔ وحدت امت کے تقاضوں کے تحت الحاق پاکستان کی حامی، کشمیرکی خواتین تنظیم دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی نے اپنی زندگی کشمیری خواتین کی اصلاح ،کشمیرکی تحریک آزادی میں خواتین کے متعین کردارکے حوالے سے انکی رہنمائی کے لئے وقف کر دی ہے۔اپنے اس ہدف کوپانے کے لئے تادم تحریروہ کوہ گراں ثابت ہوئی ہیں، قیدوبندکی صعوبتیں،روارکھے جانے والاظلم و جبر انہیں تادم تحریرخوفزدہ نہ کرسکا ۔بلاشبہ وہ نڈر، دلیراور انتھک خاتون اسلام ہیں۔ 1985 ء میں انہوں نے’’ دختران ملت‘‘ کے نام سے ایک توانا اورمضبوط اصلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جو آنے والے چند سال کے دوران کشمیری خواتین کی ایک متحرک اور مقبول ترین تنظیم بن گئی۔کشمیرکی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ اس تنظیم کا پہلا ٹاکرہ 1987ء مارچ میں ہوا جب انہوں نے عریانیت اور عورت کے استحصال کے خلاف ایک مظاہرہ کیااس مظاہرے میں انہوں نے پسنجربسوں میں خواتین کی علیحدہ نشستوں کا مطالبہ بھی کیا۔اس مظاہرے کے بعدپہلی دفعہ سری نگرمیںدختران ملت کے دفاتر سیل کردیئے گئے اورتنظیم کی تمام دستاویزات حکومتی تحویل میں لے لیب گئیں ۔ 1990ء میںبھارتی قبضے کے خلاف جب جہادکشمیرکاآغاز ہوا ،اورایک عظیم تحریک منصہ شہود پر آئی تودختران ملت ،کشمیری خواتین پرمشتمل وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ڈنکے کی چوٹ پراورنہایت مبرہن اندازمیں اس کی حمایت کا اعلان کیاجبکہ ان کے شوہرعاشق حسین فکتوکشمیرکی بانی جہادی تنظیم جمعیت المجاہدین کے اولین اراکین میں سے تھے۔ کشمیرپربھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف جہادکشمیرکی حمایت کرنے اوراس کا ساتھ دینے کے الزام کے سلسلے میں آسیہ اندرابی کی تنظیم کو1990ء میں کالعدم قرار دیاگیا۔اگرچہ بنیادی طورپر دختران ملت ایک اصلاحی تنظیم کے طور پرمعرض وجودمیں آئی تھی تاہم بھارتی قبضے کے خلاف کشمیر میں جہاد کشمیرکے شروع ہونے کے بعداس تنظیم نے اپنے دائرہ کارکو واضح طورپرتوسیع دی،اورکشمیرکی تحریک آزادی کی اب یہ باضابطہ ایک اکائی کے طورپرکام کررہی ہے ۔اس کے اسی کرداروعمل کے باعث گزشتہ اٹھائیس برسوں سے اب وہلی اورریاست کی کٹھ پتلی سرکاردختران ملت کو ایک سخت گیر نظریاتی تنظیم کے طورپرسمجھتی ہے۔دختران ملت کی مہمات کی پاداش میںآسیہ اندرابی کو کئی دفعہ گرفتار کیا گیا اور آج تک انہیں کئی مرتبہ جیل جاناپڑا۔1993ء میں آسیہ اندرابی کو ان کے شیر خوار بچے سمیت 13ماہ تک سری نگرسنٹرل جیل میں قید رکھا گیا۔ اس کے بعد ان کی بار بار گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ گویا ان کاجیل آنا جانا بھی لگا رہا ہے اورانہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوںمیں اذیتیں برداشت کرتے گزرا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔جدوجہد کے اس طویل سفر کے دوران آسیہ اندرابی کو اپنے شوہر ڈاکٹر عاشق حسین فکتوکے عمرقیدکی سزاکی پاداش میں انکے جیل جانے پراجیرن زندگی جینے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس کے باوجود مایوسی ان پر غالب نہیں آسکی۔