کل ہم نے 73واں یوم آزادی منایا۔سوچا ہم اس ماحول اور زمانے کا ایک دورہ کر لیں جب پاکستان بن رہا تھا اور پنجاب یونینسٹوں کے کنٹرول سے نکل کر مسلم لیگ کا حامی ہو رہا تھا۔زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی کی تصنیف سے مدد لی۔ جنوری 1947ء میںخضر حیات ٹوانہ کی حکومت نے حکم دیا کہ سارے مذہبی فرقوں کی مسلح تنظیموں پر پابندی عاید کر دی جائے۔ پولیس نے اسی روز لاہور کے رائل پارک میں مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ مسلم لیگ کے رہنما افتخار الدین موقع پر پہنچے تو ان کے ساتھ فیروز خان نون‘ نواب ممدوٹ‘ ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات تھے۔ آٹھ مسلم لیگی لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔مسلم لیگ نے اسی دن یونینسٹ وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ پولیس مسلم لیگی رضا کاروں کو گرفتار کر کے شہر سے دور چھوڑ دیا کرتی۔ پولیس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لئے اس کی عمومی ہمدردیاں مظاہرین کے ساتھ ہوتیں۔ جیلوں میں بھی چھوٹے بڑے مسلمان ملازمین گرفتار شدگان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔ مسلم لیگ میں اس زمانے میں مفاد پرست شامل ہونے لگے تھے۔ ان جاگیردار لیڈروں کے لئے سول نافرمانی تحریک ایک میلے یا تفریح جیسی تھی۔ ان کا رویہ ویسا ہی تھا جیسا ان کے پوتے اور نواسے الیکٹ ایبلز کا آج۔انتظامیہ میں مسلمانوں کے لئے ہمدردی کا فائدہ اٹھا کر یہ لوگ دعویٰ کرنے لگے کہ انہوں نے پاکستان کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ان صعوبتوں کی حقیقت ’’پاکستان کیسے بنا میں‘‘ میں بتائی گئی ہے ۔فیروز خان نون کہتے ہیں کہ جیل میں میرا آٹھ پونڈ وزن صرف 34دنوں کے اندر بڑھ گیا کیونکہ ایک تو میرے دوست نہایت نفیس کھانے بھیجتے رہتے تھے۔ دوسری طرف ورزش ندارد تھی۔ ہندوئوں اور سکھوں کی مسلم دشمنی‘ قائد اعظم کی پرعزم قیادت اور مختلف تاریخی قوتوں نے سیاسی تبدیلی کے لئے جو فصل اگائی تھی‘ جاگیردار اسے اٹھانے آ پہنچے تھے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مذکورہ جاگیردار پنجاب میں تحریک پاکستان کے روح رواں نہیں تھے تو پھر یہ تحریک کن لوگوں نے چلائی۔ اس کا جواب گورنر پنجاب جینکز نے 8فروری 1947ء کو وائسرائے کو اپنی خفیہ رپورٹ میں دیا۔ ’’ایجی ٹیشن کو تقریباً تمام مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل ہیں خواہ وہ سرکاری ملازم ہوں‘ خواہ غیر سرکاری ہوں‘ تحریک کے شرکاء میں سیاستدان‘ ان کی خواتین اور غریب طبقات شامل ہیں۔ بعض اضلاع میں خضر اور اس کی وزارت کے خلاف نعرہ بازی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے‘‘ صرف نعروں‘ جلوسوں اور سیاسی حربوں سے کام نہیں لیا جا رہا تھا بلکہ پنجاب میں تصادم کی نئی صف بندی مکمل ہو چکی تھی۔ کانگرس نے سکھ رہنمائوں میں سے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا جو پنجاب اور پنجابی کی بجائے مسلم دشمنی پر یقین رکھتے تھے۔ہر جماعت نے اپنا عسکری ونگ بنا رکھا تھا۔ فرانسس ٹکر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جنگ کے دوران چھٹی پر جانے والے اور 1945ء میں ملازمت سے فارغ ہو کر گھر جانے والے سپاہیوں نے پنجاب کے دیہات میں اسلحہ و بارود سمگل کیا۔ بعض مسلم لیگیوں نے ضلع کوہاٹ سے دیسی ساخت کی بندوقیں خریدیں۔کانگرس اور اکالیوں نے بندوقوں اور دوسرے ہتھیاروں کا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں صوبے بھر کے لوہار بہت مصروف رہے کیونکہ کلہاڑیوں‘ نیزوں اور تلواروں کی مانگ بڑھ گئی تھی۔ ہر بالغ شخص اپنی چارپائی کے پاس ہتھیار رکھ کر سوتا تھا اور بیشتر گھروں میں کوئی نہ کوئی فرد ساری رات جاگتا رہتا۔ ہندوئوں اور سکھوں نے اپنی گلیوں کے آگے آہنی دروازے لگوا لئے۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے محلے میں نہیں جاتے تھے اور نہ ہی مسلمان ان کے محلوں میں جاتے۔ ہر قوم کے غنڈے اپنے لوگوں میں ہر دلعزیز ہو گئے تھے کیونکہ شریف اور بزدل لوگ اپنی اور اہل و عیال کی حفاظت کے لئے ان پر انحصار کرتے تھے۔ جونہی خضر حیات ٹوانہ حکومت مستعفی ہوئی مظفر علی قزلباش قلابازی کھا کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ جاگیرداروں کی موقع پرستی کھل رہی تھی۔ 5مارچ 1947ء کو حکومت پنجاب نے ایک روز پہلے کے لاہور فسادات پر رپورٹ جاری کی۔ بتایا گیا کہ شہر میں فساد کی ابتداء 4مارچ کو 10بجے صبح ہوئی جب ہندوئوں اور سکھوں کا جلوس انارکلی سے گزر رہا تھا۔ تقریباً تین چار سو لوگ ہوں گے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ مسلمانوں کی دکانوں پر سے مسلم لیگ کے جھنڈوں کو زبردستی اتار دیا۔ سہ پہر کو ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز) میں ہندو اور سکھ لیڈر جمع ہوئے۔ ماسٹر تارا سنگھ‘گیانی کرتار سنگھ‘ اودھم سنگھ ناگو کی اور ڈاکٹر گوپی چند بھارگو نمایاں تھے۔ فیصلہ کیا گیا کہ صرف سکھوں کے حق میں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے جائیں گے۔ ہندوئوں کے نعروں سے قطعی گریز کیا جائے گا۔ لاہور فسادات کی خبر ملتان اور امرتسر پہنچی تو دونوں شہروں میں قتل و غارت شروع ہو گئی۔ اگلے دن گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ جالندھر اور فیروز پور میں بھی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ سینکڑوں مکان راکھ کا ڈھیر ہو گئے۔ مکانوں کی آگ میں بہت سی عورتیں جل کر مر گئیں‘ بچے مائوں سے لپٹے لپٹے کوئلہ ہو گئے۔ سانحات کا ایسا دروازہ کھلا کہ غریب اور نہتے افراد زیادہ متاثر ہوئے۔ جاگیردار پاکستان بننے کے بعد ملک کا مالک و مختار ہو گیا‘ سکھ آج سارا الزام کانگرس پر دھر کر پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے ناحق مسلمانوں کو قتل کیا مگر وہ جن کے مکان جلے‘ عورتیں جلیں اور بچے کوئلہ ہوئے انہیں ابھی تک فسادات سے امن نہیں ملا‘ وہ آج بھی رات کو جاگ کر خاندان کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ آج بھی آزادی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔