آپ کیا سمجھتے ہیں، ایک نوکری پیشہ کے لئے تنخواہ کے چند ہزار کیا ہیں ؟یہ اس کے لئے آکسیجن کا وہ سیلنڈر ہے جس کے ساتھ اس کی اور اس پر انحصار کرنے والے خاندان کی زندگیاں وابستہ ہیں ۔ تنخواہ کے چند ہزار اس کے بچوں کی مسکراہٹ ہیں۔تنخواہ کے چند ہزار اس کے گھر کا سکون ہیں۔تنخواہ کے چند ہزار اس کی وہ لائف لائن ہے ،جو اگر نہ ملے تو اس کو زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔زندگی کی بپھرے ہوئے سمندر میں تنخواہ کے چند ہزار وہ ساحل ہیں، جن پر تیس دن کی کشتیاں لنگر انداز ہوتی ہیں۔ بیک جنبش قلم لوگوں کے روزگار چھیننے والے اس زندگی بخش آکسیجن سلنڈر کو بند کر دیتے ہیں ،جس سے ان کی زندگی کے پھیپھڑے سانس کشید کرتے ہیں۔فہیم مغل کو نوکری سے نکال کر اسے زندگی کے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا۔قسط قسط تو وہ روز ہی مر رہا تھا، زندگی اتنی مشکل ہوئی کہ اس نے خود پر موت آسان کرلی۔ میڈیا پر تحریک انصاف کی حکومت میں بہت برا وقت رہا، کئی میڈیا ہاوسز بند کرنے پڑے جو چینل اور اخبارات کے دفاتر کھلے ہیں، انہیں بے رحمانہ قسم کی ڈاؤن سائزنگ کرنی پڑی۔لگے لگائے روزگار سے لوگوں کو فارغ کرنا پڑا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا فہیم مغل بھی ایک بڑے اخبار سے نکالا گیا۔پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ کرائے کا گھر بیوی کو ملا کر کل آٹھ افراد کے گھرانے کا واحد کفیل تھا۔ آ ٹھ انسانوں سے جڑی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا ،اس کی ذمہ داری تھی۔وہ یہی کر سکتا تھا کہ نوکری کرے اور اس تنخواہ سے اپنے بچوں کا پیٹ پالے لیکن اس کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے نکالنے والے کبھی اس کے زندگی سے جڑے ہوئے المیوں پر غور نہیں کرتے ۔وہ کسی انسان کی زندگی سے جڑے ہوئے خساروں سے زیادہ اپنے کاروبار کے خساروں پر سوچ بچار کرنے والے ہیں۔ سو فہیم کی نوکری اخبار سے ختم کر دی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ اس نے حالات کو سدھارنے کی کوشش نہیں ۔فہیم نے نوکری سے فارغ ہونے کے بعد کرائے پر رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ رکشا کرائے پر چلاتا رکشہ خراب ہوتا، تو وہ اپنی آمدنی کے حصہ سے اس کی مرمت کرواتا ،انہی پیسوں میں سے روز رکشے کے مالک کو کرایہ دیتا ،جو کچھ بچتا اس سے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام کرتا، اس خودکشی کے بعد اس کی بیوی کا انٹرویو بی بی سی پر آیا ہے۔ وہ بتاتی ہے۔ کہ رکشہ اتنا پرانا تھا ۔آئے روز خراب ہوتا اور مرمت پر آمدنی کا کافی حصہ اٹھ جاتا۔فہیم نے اپنے حالات سے تنگ آ کر ایک دو بار زندگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی پھر بیوی نے ترلے واسطے دیے کہ تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر تم دنیا سے چلے گئے تو ان کا سہارا کون ہوگا ۔خود کشی سے ایک رات پہلے تک وہ شوہر کوہمت دلاتی رہی، اپنی جان کو ختم نہ کرنا، ورنہ تمہارے بچے رل جائیں گے لیکن فہیم ہمت ہار چکا۔خالی جیب اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا، وہ آخری دن اس پر بہت بھاری تھا ،اس دن چھوٹے بچوں کے لیے دودھ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچ کر میں ٹھہر گئی ہوں، سانس چڑھنے لگا ہے آنکھیں دھندلا گی ہیں۔سمجھ نہیں آ رہی کہ شدت احساس کے ایک طویل صحرا کو کیسے پار کروں۔۔۔؟کالم کے لیے مقررہ لفظ پورے نہ کرنے ہوتے تو شاید میں اس تحریر کو ادھورا چھوڑ دیتی، شدت احساس کے طویل صحرا کے سامنے ہانپتے ہوئے ایک عمر گزار دیتی۔۔ایک باپ پر کیا بیتی ہو گی ،جب اس کے پاس اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے دودھ کے پیسے بھی نہ ہوں اور وہ جس شہر میں رہتا ہو، وہاں اربوں کھربوں کے کاروبار ہوتے ہوں۔ ایک ایک وقت میں کروڑوں کے کاروباری معاہدے کرنے والے دولتمند موجود ہوں، امیران شہر ہزاروں روپیہ ایک وقت کے کھانے پر اڑاتے ہوں۔ مہنگے شاپنگ مالز میں خریداری کرنے والی بیگمات ضرورت کے دائرے سے باہر خریدی جانے والی اشیاء پر لاکھوں کے بل ادا کرتی ہوں۔ جس شہر کے اہل اقتدار سے اربوں کھربوں کی کرپشن سچی داستانیں وابستہ ہوں، ایک سرکاری افسر قائم خانی ہی مان نہ ہو جس کی الماریوں سے الف لیلوی کہانیوں کی طرح ہیرے جواہرات اور سونے کے خزانے برآمد ہوں ،وہاں اس شہر میں اس رات میں فہیم نے اپنے آپ کو اس قدر بے بس محسوس کیا کہ اس کی جیب میں اپنے معصوم بچوں کی دودھ کے پیسے نہیں۔ وہ شہر جہاں پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ہیڈکوارٹرز کی شاندار عمارتیں ہیں، جن کے چاک و چوبند رپورٹر شہر کی ایک ایک خبر پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس لیے کہ کوئی دوسرا اس خبر کو بریک کرنے میں ان سے سبقت نہ لے جائے۔ مگر وہ سب کے سب بے خبر رہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کے سب سے بڑے المیے سے دوچار ہونے والا ہے ،وہ اپنی زندگی اس لیے ختم کرنے والا ہے کہ اس کی نوکری چھین کر اسے بے روزگار کیا گیا۔ اس پہ قرضوں کے انبار ہیں ،وہ زندگی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا اور اب اس کی جیب میں اپنے ننھے بچوں کے دودھ کے پیسے تک نہیں ہے ۔ ہائے ہائے احمد مشتاق کہاں یاد آئے کہ اس نے اس وطن کے بچوں کے لئے جب امن اور انصاف کی دعا کی تھی تو ان کے لیے چاندی سے اجلے دودھ کی دعا بھی مانگی تھی۔ جب باپ کی جیب میں بچوں کے دودھ کے پیسے بھی نہ رہیں، شہر بے خبر رہے تو پھر امن نہیں رہ سکتا، کوئی سانحہ ہو کے رہتا ،کوئی المیہ جنم لیتا ہے۔ فہیم کے چھے ننھے بچے بے امن ہوچکے ہیں۔ ہے کوئی والی وارث۔۔؟؟؟