مْلک کا آئین ہے پالیسی ساز ہیں۔ بڑے بڑے قانون ساز ادارے ہیں حکومتی ادارے ہیں لیکن ملکی مْعاملات چل نہیں رہے ہیں۔ ظاہر ہے گھر کے سارے بچے اْلجھے ہوئے ہیں لڑ بھی رہے ہیں، تْوں تڑاک بھی جاری ہے لیکن گھر کا بْزرگ یا تو چْپ ہے یا بعض بچوں کی طرف داری کر رہا ہے اسی لئے بچوں کی تْوں تکرار کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پا رہی ہے! بڑے بھائی بھی طرف داری کے مْرتکب ہیں ! ظاہر ہے اس ہلا شیری میں گھر کا ہی نْقصان ہو رہا ہے رشتے دار بھی جھگڑے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں یہاں شاید کہنا درست ہے ہے کہ ہر شاخ پہ اْلوْ بیٹھا ہے۔۔انجام گلستان کیا ہوگا ! میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا واقعی صورت حال اتنی مْشکل ہے کہ جو فیصلے میں مانع ہے ؟ دیانتداری کے ساتھ جواب ملتا ہے کہ ہر گز نہیں ! ایسے ملک نہیں چل سکتا وگرنہ ریاست کے حالات گھمبیر ہوجائیں گے اب بالکل وْہی صورت حال درپیش ہے جو یحییٰ خان کو 31 دسمبر 1960ء میں تھی ! بس سادہ سا ایک لائن کا فیصلہ ! اْس وقت کی قیادت فیصلہ بروقت کرنے میں ناکام ہْوئی تھی تو مْلک دو لخت ہوگیا تھا موجودہ قیادت کے سامنے اسی قسم کی صورت حال درپیش ہے ان سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ تاریخ دْہرائی جا رہی ہے اب تو وقت دعا ہے ۔ تباہی کی شروعات ہوا چاہتی ہے۔ پھر بھی دعا کرنی چاہیئے ملکی سلامتی کے لئے ! پاکستان کی بہتری کے لئے کہ کوئی معجزہ برپا ہو جائے لیکن دعا کے ساتھ ساتھ تدابیریں اختیار کرنی ہونگی وگرنہ ریاست کو نقصان پہنچسکتا ہے یہ پٹاخے یہ شوشے یہ گرفتاریاں یہ حملے یہ برہنگی یہ ویڈیوز حق اور سچ کو مٹانے کی کوششیں اور باطل اور جھوٹ کو لانے بلکہ مسلّط کرنے کی کوششیں پاکستان کی بربادی کا پتہ دیتی ہیں۔ ظاہر ہے دعائیں ایسے ہی قبول نہیں ہوتیں مْعجزے یونہی نہیں ہوتے اللہ کا حکم ہے کہ وْہ ان قوموں کی حالت ہر گز نہیں بدلتا جب تک وْہ خود تبدیل ہونے کی کوشش نہ کریں ! موجودہ صورت حال میں قوم خواب غفلت سے جاگ گئی ہے اور ملک کے نظام کے تبدیل کرنے کی کوشش میں شامل ہو رہی ہے تو پھر رْکاوٹ کہاں ہے ؟ موجودہ حکومت ظاہری طور پر جمہوری طریقے اور آئینی طریقے سے وجود میں آئی ہے مگر حقیقت میں غیر جمہوری ، غیر اخلاقی اور غلط طریقوں کا استعمال ہوا جس سے عوام میں بے انتہا بے چینی پیدا ہْوئی اور شدید ردعمل پایا جاتا ہے جس کا اظہار پورے پاکستان اور بیرونی ممالک میں بھی پاکستانیوں نے کیا ہے۔ یہ ضمنی انتخابات کے نتائج یہ جلسے یہ ریلیاں یہ احتجاج یہ مظاہرے پاکستانی ہی تو کر رہے ہیں پھر حکومت کے عوام دشمن اقدامات سے مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ بْنیادی ضروریات زندگی بھی غریبوں کی قوت خرید سے بہت دور ہو گئی۔ سب سے زیادہ افسوسناک واقعہ صدراتی ایوارڈ یافتہ صحافی ارشد شریف کا مْلک چھوڑنا اور دیار غیر میں اْن کا شہید کیا جانا ہے اس تناظر میں عوام میں حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا گیا ہے اس صورت حال سے مْتاثر ہو کر تحریک انصاف نے پْر امن مارچ شروع کیا لیکن وْہ بھی راستے میں روکنا پڑا کہ پارٹی کے سربراہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کر دیا گیا ہے جس سے مْلکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ مْلک میں قابل اعتراض ویڈیوز پھیلانے کا عمل اس حکومت میں یہ بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا ہے اور اس کا بدترین نمونہ تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی ویڈیو لیک ہے بد اخلاقی، ظْلم بدتمیزی لاقانونیت کی غلیظ ترین مثال اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کوئی سوچ سکتا ہے کہ ماں بہن بیٹی والا انسان ایسی گھٹیا حرکت کرسکتا ہے جو ظاہر ہے موجودہ حکومت کے کھاتے میں ہی ڈالی جائے گئی اس عمل سے ملکی صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے اس طرح اور ہر گْزرنے والے دن کے ساتھ حالات خرابی کی طرف جا رہے ہیں ملک کی مْعاشی صورت حال دگر گوں ہے۔ نہ باہر سے سرمایہ کاری آ نہیں رہی ہے نہ اندورن ملک غیر یقینی صورت حال ہے ۔ موجودہ حکومت کی اس بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے میں ناکامی ملکی حالات کو اور خراب کر رہی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مْقتدر حلقوں فیصلے کریں کیونکہ مْلک زیادہ دیر تک غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحرانوں کا مْتحمل نہیں ہو سکتا۔ وْہ کیا فیصلے ہیں جو حالات کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں میرے خیال میں تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر نئی حکومت کے لئے نئے انتخابات پر مْتفق ہونا چاہئیے اس کے بعد شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے لئے اْن تمام اقدامات پر کام کرنا چاہیئے تا کہ مْستقبل میں کوئی انتخابات میں دھاندلی نہ کر سکے اور نہ انتخابات کی کریڈیبلٹی پر سوال اْٹھا سکے اس کے ساتھ صحافیوں اور شہریوں کے ساتھ زیادتی کی انکوائری کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ماضی کے اس قسم کے حادثوں میں شہید ہونے والوں کی طرح اس کیس کو سْرخ فیتے کا شکار نہ ہونے دیا جائے اور ہمارے خیال میں ایک نگران حکومت کے قیام کے ساتھ نئے انتخابات کے اعلان سے مْلک کی اندرونی صورت حال بہت بہتر ہو جائے گئی۔ امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم میں مصروف ہوجائیں گئے اور رجیم چینچ کے بعد اداروں کے خلاف جو آوازیں ہر جانب سے اندرون اور بیرون ملک اٹھ رہی ہیں وہ ایک دم خاموش ہوجائیں گی آج جو باتیں عمران خان کر رہے ہیں ماضی کے حکمران وہ باتیں زیادہ زور و شور سے کرتے رہے ہیں اور موجودہ جو حکمران ہیں وہ مستقبل میں اسی کشتی میں سوار ہو نگے ادارے اور سیاست دان آئین اور قانون میں رہتے ہوئے قوم کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کریں اور پاکستان کی بہتری کے لئے جمہوریت کی بقاء پارلیمنٹ عدلیہ انتظامیہ اور فوج جیسے اداروں کی بے توقیری اور بدنامی کا باعث نہ بنیں۔