دریتیم سے مراد وہ موتی ہے جو سیپ سے ایک ہی نکلا ہو اسے گوہرِ یک دانہ بھی کہتے ہیں۔بیت العتیق حرم نبی پاکؐ کا وہ دروازہ جس سے صرف باہر جانے کی اجازت ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ دیوانے درود پڑھتے جالیوں کے اندر جھانکتے شرطوں سے بچ کر مطہر جالیوں کو ہاتھ لگانے کی تمنا لیے اس دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ عشاق دوبارہ ایک چکر کاٹ کر منبر نبی پاکؐ ریاض الجنہ سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے انہیں جالیوں کے قریب ایک پل رکتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح جالیوں کو چوم لیں مگر اب عشاق اور جالیوں کے درمیان گز دو گز کا فاصلہ بنا دیا گیا ہے وہاں سے باب العتیق سے نکل جاتے ہیں۔بیت العتیق کی وجہ تسمیہ شاید یہی ہے کہ یہی سب سے قدیم دروازہ ہے۔ دروازے کی بائیں جانب مہبط جبرئیل ہے جہاں سے یہ مقرب فرشتہ نبی پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔یہیں سے وہ پر جنہوں نے ساری دنیا کو گھیرے میں لیا ہوا ہے رسالت مآب کی مجلس میں حاضر ہوتے تو ان پروں سمیت سمٹ کر آتا وحی نازل ہوتی۔اب اس مہبط کا کوئی نشان باقی نہیں ہے ۔زیارت کروانے والا ہی بتا سکتا ہے۔یہ گنبد خضریٰ کی شمال والی دیوار ہے حرم نبیؐ میں مجھے سمتوں کا پتہ نہیں چلتا مجھے وہ دیوار شمال کی طرف لگتی ہے شاید ایسا ہی ہو شاید ایسا نہ ہو۔میں اپنے اندازے کے مطابق اسے شمال کی طرف سمجھتا ہوں۔ گنبد خضرا یعنی نبی پاکؐ کا روضہ مسجد نبوی سے باہر تھا۔نبی پاکؐ کا پہلا حجرہ مبارک جس میں آنحضرتؐ بی بی عائشہؓ کے ساتھ رہتے تھے، مسجد سے ملحق تھا بعد میں اس میں دو حجروں کا اضافہ ہوا، ایک میں ام المومنین بی بی سودہؓ اور تیسرے میں فاطمتہ الزہراؓ مقیم تھیں۔ مسجد کی حدود میں اضافہ شیخین کے ادوار میں بھی ہوا مگر یہ حجرے مسجد سے الگ تھے تاوقتیکہ اموی خلیفہ ابوالملوک کے بیٹے ولید بن عبدالملک کے زمانے میں اسے مسجد کے اندر کر دیا گیا۔سبز گنبد عثمانی خلیفہ عبدالمجید نے بنوایا۔ام المومنین عائشہؓ آپؐ کے وصال کے بعد وہیں مقیم رہیں اور جب شیخین کی اس حجرے میں تدفین ہو گئی تب بھی انہوں نے رہائش وہیں رکھی مگر درمان میں دیوار تعمیر کر دی گئی۔ اسی حجرے کے باہر ایک جگہ تھی جہاں اب شرطے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم جالیوں میں نبی پاکؐ کو سلام عرض کرتے ہیں اسی جگہ پر وہ غرفہ تھا جہاں نبی پاکؐ آرام فرمایا کرتے اور رات کو استراحت فرمایا کرتے تھے۔اسی حجرے کی پشت پر وہ مہبط ِ جبرئیل ہے جہاں سے سب سے مقرب فرشتہ نبی پاکؐکی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔اب مہبط جبرئیل کا نشان نہیں ہے۔یہ حجرے کے مغربی شمالی کونے میں واقع ہے۔ آج جب مسجد نبی پاکؐ میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا تو مہبط جبرئیل کی زیارت کا قصد نہیں تھا۔میں اصحاب صفہ پر کافی دیر بیٹھا رہا، عشاقان رسولؐ ان کے صحابہؓ کے تہڑے پر خاموش بیٹھے تھے تہڑا بھرا پڑا تھا وہاں بیٹھنے کی گنجائش ہی نہیں تھی ایک طرف تھوڑی سی جگہ ملی نصیب اوج ِ ثریا پر تھا بالکل ساتھ بی بی فاطمتہ الزہراؓ کا گھر تھا۔جس کے اب نشانات باقی ہیں میرے ٹور اپریٹر نے اس متبرک مقام کی نشاندہی کی دو رکعت نفل ادا کیے۔ اپنی قسمت پر رشک کیا۔ایک اوگن ہارا بی بی کے گھر میں نفل پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہا تھا۔اپنے آپ سے بے نیاز کسی دنیاوی مقصد سے بے نیاز عشق کی کوئی خاص ساعت تھی بخت کی بلندی کی گھڑی تھی۔نفل ادا کیے جو دعائیں یاد تھیں ایک ایک کر کے نبی پاکؐ کی مقدس خدمت میں پیش کیں۔بات کرنے کا یارا نہ تھا نظر اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔ ایک طرف دو آدمیوں کو آپس میں بحث کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے لگتا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف ہی نہیں رکھتے تھے آپس میں کوئی دشمنی تھی۔دونوں بحث میں الجھے ہوئے تھے ان میں ایک سندھ کے کچے علاقے کا تیس سالہ نوجوان تھا جو حکومتی موقف پر ڈٹا ہوا تھا وہ دونوں نزاعی موضوع پر بحث کر رہے تھے ایک دوسرے کے پاس اپنے اپنے دلائل تھے اپنے اپنے نکات تھے۔ اتنے میں ایک تیسرا آدمی بھی آ کے اس بحث میں شامل ہو گیا۔وہ دونوں کی باتیں سنتا اور کج بحثی کے بعد کہتا مگر ’’ سائینس تو یہ کہتی ہے‘‘۔ گویا یہ اس کا تکیہ کلام تھا۔ دونوں ہار ماننے والے نہیں تھے۔یہ عین وہ جگہ تھی جہاں بی بی پاک کا گھر تھا اور اسی جگہ میں نے ابھی دو نفل ادا کیے تھے۔ بات آ کر ترک خلیفوں پر رکی کہ یہ سونے کے پانی سے لکھی آیات پر کیوں سونے کا گاڑھا پانی پھیر کر ان آیات کو چھپایا گیا۔تین آدمیوں کے ذرا نزدیک ہوا تو پتہ چلا ایک ہمارے ٹور آپریٹر کے صاحب زادے ہیں ان سے گزارش کی کہ بحث کی جا نہیں آگے چلیں اور اگلی زیارت گاہ پر رکیے فرمانے لگے ٹہرو اس کا مکو ٹھپ لوں۔ ساتھ ساتھ آواز آتی سائنسی نقطہ نظر سے ان زیر بحث موضوعات کو دیکھناچاہیے اور ساتھ ہی سائنس کا حوالہ دینے کوشش کرتے۔ہم نے دوبارہ اپنے ساتھی سے عرض کیا تو معاملہ بیچ میں رہ گیا۔ایک سندھ کچے علاقے کا نوجون تھا وہ سعودی حکومت کا ملازم تھا۔دونوں بحث میں الجھے ہوئے تھے میں تھوڑا سا وہاں نکل اپنے ٹور آپریٹر کے بیٹے کا انتظار کروں کہ تیسرا آدمی میرے پیچھے لپکا اور کہا کہ وہ دونوں ٹھیک کہتے ہیں مگر ’’سائنس تو یہ کہتی ہے‘‘۔ (جاری)