متحدہ قومی موومنٹ اور اُس کی تین دہائی پر مبنی سیاست اور اُس کے بکھرنے ،ٹوٹنے کا تفصیلی جائزہ گزشتہ کالموں میں تو لے چکا۔۔۔مگر سندھ کی سیاست میں معروف اصطلاح میں اردو اسپیکنگ یا شہری علاقوں کا ہفتوں ،مہینوں میں دوسری بڑی قوت بننے کے محرکات اور اسباب کو بھی تو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ درست ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد مہاجروں کی اکثریت جب خصوصاً سندھ کے شہری علاقوں ، خاص طور پر کراچی ،حیدر آباد میں آکر پناہ گزین ہوئی تو وہ تعلیمی اور ایک حد تک مالی طور پر مقامی لوگوں سے آگے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں بھی ان کی اکثریت تھی۔مگر ستّر کی دہائی کے آغاز میں جب پیپلز پارٹی ایک طوفان بن کر وفاق اور صوبے سندھ میں اقتدار میں آئی تو سندھی مڈل کلاس اور وڈیرا کلاس نے بھی راتوں رات سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی صنعت و تجارت میں ایک موثر اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔ جس سے لازمی طور پر سندھ کی سیاست میں بھی ،شہری اور دیہی بنیادوں پر تقسیم ہونی تھی۔پیپلز پارٹی کے خلاف اُس وقت سیاسی میدان میںجماعت اسلامی ،اور جمعیت علمائے پاکستان دو بڑی ایسی جماعتیں تھیں جنہیں شہری علاقوں یا اردواسپیکنگ ووٹروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔1970کے الیکشن میں کراچی اور حیدر آباد سے قومی اسمبلی کی 7میں سے 5نشستوں پر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار کامیاب ہوگئے ۔مگر دونوں جماعتوں کی بنیاد سیاسی ،لسانی نہیں،مذہبی تھی۔یادداشت پر زور ڈالنے کے بعد یاد آرہا ہے کہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میںٹکراؤ بلکہ محاذ آرائی اُس وقت ہوئی جب اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سردار ممتاز علی خان بھٹو نے سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کو سرکاری حیثیت دینے کا بل پاس کیا۔جس کی اس وقت کی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے تو مزاحمت کی ہی ،مگر سندھ کی پڑھی لکھی مڈل کلاس اور سول سوسائٹی نے اس پر شدید ردّ ِ عمل کا اظہار کیا۔کراچی سے نکلنے والے کثیر الاشاعتی اخبار میں جب ممتاز شاعر رئیس امروہوی کے اس وقت کے اس مصرعے : اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے نے سارے صوبے میں آگ لگا دی۔اور پھر رئیس امروہوی کا یہ مصرعہ ہی مہاجر سیاست کی بنیاد بن گیا۔مرحوم رئیس امروہوی کا شمار مہاجر قومی موومنٹ کے ’’مینٹور‘‘ میں تھا۔یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میںعلیحدگی کی بنیادبھی بنگالی زبان بنی تھی۔قائد اعظم کے پہلے اور آخری دورہ ٔ ڈھاکہ کے دوران بنگالی قوم پرستوں نے زبان کے مسئلہ پر جو احتجاج کیا ‘جسے طاقت سے کچلنے کی کوشش کی گئی تو در اصل یہ بنیاد تھی شیخ مجیب الرحمان کے بنگلہ بندھو بننے اور چھ نکات کی۔ اسّی کی دہائی کے آغاز میں کراچی کے نشتر پارک میں جب مہاجر قومی موومنٹ کے پہلے عوامی جلسے سے الطاف حسین نے خطاب کیا تو اُس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ آگے چل کر شیخ مجیب الرحمان کی سیاست کو ہی آگے بڑھائیں گے۔نشتر پارک کے اس جلسے میں پہلی بار صرف اور صرف ’’مہاجر‘‘کی بنیاد پر سیاست کی ’’نیو‘‘رکھی گئی۔معذرت کے ساتھ ،مہاجر قومی موومنٹ کو سندھ میں ایک سیاسی قوت بنانے میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کی تنگ نظری نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔کراچی اور حیدر آباد کی بلدیات اور پھر 1988کے انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کا عروج و زوال تو آج کی تاریخ ہے۔گزشتہ تین دہائیوںمیں متحدہ قومی موومنٹ وفاق اور صوبے میں خاصے طویل عرصے اقتدار میں رہی ۔کراچی اور حیدر آباد کی بلدیات کے اربوں روپے کے فنڈ سے بھی اس کی قیادت نے خود ہاتھ کالے کئے ۔مگر بد قسمتی سے سندھ کے اردو اسپیکنگ یا شہری علاقوں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔یوں تو سندھی اسپیکنگ عوام بھی کم محروم و مظلوم نہیں کہ اُن کی نمائندہ جماعت مارے بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی۔مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔آج ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت اسّی اور نوّے کی دہائی میںلگائے جانے والے نعروں کو دہرا رہی ہے۔میئر کراچی کہتے ہیں:کراچی نے تین سال میں 400ارب روپے کا ریونیو دیا۔مگر اسے اس عرصے میں ترقیاتی کاموں کے لئے 37ارب روپے ملے۔حال ہی میں میئر کراچی وسیم اختر نے جو وہائٹ پیپر شائع کیا ہے اُس میں اسّی کی دہائی کے چیختے چلاتے نکات کو ہی دہرایا گیا ہے۔ذرا ایک نظر اس پر ڈالیں ، کہ ایک بار پھرپرانی بوتل میں نئی شراب کا محاورہ تازہ لگے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ پا کستان کی جانب سے جاری وائٹ پیپر میں سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بغیر کسی ’’لگی لپٹی‘‘ جو حقائق پیش کئیے گئے ہیں اُس میں انتہائی واشگاف الفاظ میں سندھ کے شہری معروف معنوں میں ’’مہاجروں‘‘ کا ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں حکومت کرنے والی حکمران جماعت اُن کے حقوق غصب کئیے بیٹھی ہے۔ آئینی اور سرکاری دستاویزات کو جس عرق ریزی اور محنت سے تیار کیا گیا ہے اُس میں ’’شیخ مجیب الرحمن‘‘ کے چھ نکات کی طرح کوئی خفیہ ہاتھ نہ بھی ہو مگر جن ذہنوں اور ہاتھوں نے انہیں ترتیب دیا ہے وہ اس بات میں بالکل واضح ہیں کہ ’’سندھ‘‘ دو لسانی صوبہ ہے اور اس کی انتظامی تقسیم کے بغیر سندھ کے شہری عوام یعنی مہاجروں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ وائٹ پیپر کی طوالت کے سبب اسے مختصر کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس کی جو اصل روح ہے وہ حکمراں جماعت ہی نہیں اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے لئیے ضرور نوشتہِ دیوار ہے۔ (جاری ہے)