عمران خان جنہیں سیاست نہیں آتی ، بڑے غیر محسوس طور پہ منجھی ہوئی اپوزیشن کے اعصاب کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔دوسری طرف کہیں یکجا اور اکثر تقسیم اپوزیشن کو بھی کوئی سنجیدہ نوعیت کا کام درپیش نہیں اس لئے وہ خوشی خوشی چار پانچ دن کسی ایسے ایشو پہ میڈیا پہ شور مچانے لگتی ہے جیسے یہی اہم ترین مسئلہ ہو۔ جس وقت آصف علی زرداری ،حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے پارلیمنٹ میں پروڈکشن آرڈر جاری کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں حکومت بظاہر مخمصے کا شکار تھی اپوزیشن کے پاس لے دے کر ایک ہی مسئلہ تھا کہ کسی طرح ان کردار و گفتار کے غازیوں کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوجائیں اور انہیں پارلیمنٹ میںایسے دھواں دھار خطاب کا موقع مل جائے کہ یہ لرزتی کانپتی حکومت ان کے قدموں میں ڈھیر ہوجائے۔ بجٹ جیسا اہم موضوع رہا ایک طرف میڈیا اور اپوزیشن کا سارازور اسی ایک نکتے پہ رہا۔اگر بجٹ منظوری اپوزیشن کے لئے واقعی کوئی مسئلہ ہوتا تو شہباز شریف کا کئی قسطوں پہ مشتمل طویل خطاب بجٹ تجاویز پہ بحث پہ مشتمل ہوتا لیکن وہاں الزامات در الزامات کے سوا کیا تھا؟ پروڈکشن آرڈر جاری کرنا یا نہ کرنا اسپیکر کا استحقاق ہے۔ آئین میں بھی کوئی ممانعت نہیں کہ اگر کسی ممبرپارلیمنٹ پہ سنگین مالی بے ضابطگیوں کے کیس چل رہے ہوں تو اسے پارلیمنٹ میں جلوہ گر ہونے اور خطابت کے جوہر دکھانے سے روکا جاسکتا ہے۔ جب تک وہ رکن پارلیمنٹ ہے کوئی بڑے سے بڑا کیس اس کی پارلیمانی رکنیت معطل نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ خود اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت ہی نہیں رکنیت سے بھی استعفی دے دے تو کون مائی کا لال اسے اپنے گھر آنے سے روک سکتا ہے۔جمہوریت کا ایک حسن یہ بھی تو ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کی لوک سبھا کی کثیر تعداد اکثر وبیشتر جرائم پیشہ افراد پہ مشتمل رہی۔ حالیہ انتخابات میں بھی لوک سبھا کی زینت بننے والے عوام کے ان منتخب نمائندوں میں سے کم سے کم تینتیس فیصد ایسے ہیں جن پہ اس وقت بھی کوئی نہ کوئی فوجداری مقدمہ چل رہا ہے جن میں اکثریت کا تعلق بی جے پی یعنی حکومتی بینچ سے ہے ۔ان پہ کسی مالی بدعنوانی یا ہیر پھیر کے نہیں بلکہ باقاعدہ قسم کے فوجداری مقدمات یعنی اغوا،قتل، دہشت گردی،جنسی تشدد آبروریزی وغیرہ قائم ہیں۔ ۔ بی جے پی کی امیدوار پراگیا ٹھاکر کامیاب ہوئی جو مالے گاوں دہشت گردی کی مرکزی ملزم اور دو ہزار مسلمانوں کے قتل کی ذمہ دار تھی۔خود نریندرا مودی بھی تو گجرات کے قاتل کہلاتے تھے اور چھبیس ہزار مسلمانوں کے خون پہ سوار ہوکے راج سنگھاسن پہ براجمان ہوئے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب قانون توڑنے والے ہی قانون ساز اسمبلی کے رکن بن جائیں تو ملک میں قانون اور انصاف کس کے ہاتھ میں ہوگا۔یہی اراکین پارلیمنٹ اگر حکومت سے تعلق رکھتے ہیں تو پانچ سال کے اندر اندر اپنے خلاف مقدمات کا اپنے حق میں فیصلہ کروالینے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں اور اگر حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں تو انہیں پارلیمنٹ میں آکر اپنے جوش خطابت کے ذریعے حکومت کی دھجیاں اڑانے کا پورا آئینی حق ہے۔یہ حق جناب آسف علی زرداری نے بھی استعمال کیا اور خطابت کے شوقین شہباز شریف نے بھی۔ مرد حر کو لیکن ایسا ہی خطاب کرنا تھا تو پہلے ہی دن پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں کیا حرج تھا۔ گمان غالب تھا کہ غالب کے اڑیں گے پرزے۔تماشہ تو لیکن کیا ہونا تھا الٹا مایوسی ہوئی۔تھکی تھکی پژمردہ سی آواز۔نہ گھن گرج نہ اپنے خلاف الزامات پہ کوئی جوابی الزامات۔کہا تو بس یہی کہ جو اس حکومت کو لے کر آئے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ایسا ہی چلتا رہا تو کیسے چلے گا لیکن اس حکومت کی نااہلی کے ثبوت میں وہ صرف سندھ میں کپاس کی فصل کی زبوں حالی اور اس پہ ٹڈی دل حملے کو ہی پیش کرسکے۔گنگناتے لہجے میں یہ بھی کہا کہ ان کے دور زریں میں کپاس کی پیداوار جو انیس بلین سے چھبیس بلین پہ پہنچ گئی تھی لیکن اب خدا جانے کہاں پہنچ گئی ہے۔ان کی خدمت میں بعد میں آنے والے اسد عمر پوچھ سکتے تھے کہ ان کے بعد پانچ سال نواز شریف کی حکومت رہی ، عمران خان کی نہیں۔یہ بھی پوچھ سکتے تھے کہ اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ لینے والے اس وقت کے صدر زرداری یہ کیوں بھول گئے کہ زرعی پیداوار کی ذمہ داری تو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی تھی، وفاق کی نہیں۔ البتہ بعد میں آنے والے دور شریف میں جب ٹیکسٹائل انڈسٹی کا بحران اپنی انتہا کو چھونے لگا اور کپاس کی پیداوار تینتیس فیصداور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برامدات دس فیصد تک گر گئیں تو نواز شریف کے برزجمہر انتظامی فیصلے کے ہی اہل ثابت نہ ہوئے اور وفاقی وزارت زراعت کے کچھ فنکشنز تو صوبوں کے پاس رہے اور باقی مختلف وفاقی وزارتوں میں تقسیم کردیے گئے۔ پاکستان کی بہترین ٹیکسٹائل صنعت سرخ فیتے کا شکار ہوکر تباہ ہوگئی لیکن اٹھارویں ترمیم بھٹو کی طرح زندہ رہی۔ لہٰذا برسبیل تذکرہ ہی سہی، زرداری کا یہ شکوہ موجودہ حکومت سے بنتا ہی نہیں تھا پھر بھی حکومت نے ٹڈی دل کے تدارک کے لئے وفاق نے اقدامات کئے۔ باقی ان کے خطاب میں صرف مفاہمت کے اشارے تھے۔کچھ مخفی التجائیں تھیں اور بحیثیت مجموعی یہ ایک ہارے اور تھکے ہوئے انسان کا خطاب تھا۔ احتساب کے مضمرات پہ لیکچر جناب عالی سے بہتر کون دے سکتا تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ ان کا خطا ب ، شہباز شریف کے گھن گرج والے طویل خطاب کے بعد تھا جس میں انہو ں نے کے پی کے میں ایک بھی اسپتال نہ بنانے پہ حکومت کے لتے لینے کی کوشش کی لیکن انتہائی منکسر المزاجی سے اسد قیصر نے حساب وہیں برابر کردیا۔ ان کے خطاب کے اگلے روز آصف علی زرادری کا سنگ سانگ لہجے میں خطاب صاف بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کے بڑوں کا حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ میثاق معیشت کے لئے بھی دل و جان سے حاضر ہیں اگر حساب کتاب بند کردیا جائے۔ لہجوں میں تلخیوں ، دھمکیوں اور سڑکوں پہ عوام کو لانے کا ٹھیکہ بڑوں نے چھوٹوں کے حوالے کردیا ہے۔ مریم نواز مجھے زبانی کلامی تلخ ضرور نظر آتی ہیں لیکن گفتار کی شعلہ بیان غازیہ کردار میں اپنے چچا جان کی سیاست کو فالو کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاکہ ون ڈے کی تیز رفتار لیکن مختصر کی بجائے ٹیسٹ میچ کی طویل اننگ کھیلی جاسکے۔اسی میں ان سب کی بقا ہے۔ سیلیکٹڈ وزیراعظم کی اصطلاح کتنی ہی بار دہرائی جائے اس بیانیے کو عوام نے پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی کیونکہ یہ ایک ضد فوج بیانیہ ہے جو عوام میں غیر مقبول ہے۔اس وقت جو تقریر حزب اختلاف کے کسی لیڈر کو کرنی اور اسکور بنانے چاہئے تھے وہ اسد عمر نے کر ڈالی ہے اور تاریخ میں پہلی بار کسی حکومتی رکن نے اپنی ہی حکومت کے بجٹ پہ اعتراض کیا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ہے جو اپوزیشن سمجھ نہیں پارہی۔