بلور خاندان پر شدت غم کی گھڑی ہے۔ چند سالوں کے فرض سے خونی تاریخ نے خود کو دھرایا ہے۔ صرف موسموں کا فرق ہے ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور 22دسمبر 2012ء کی ایک یخ بستہ شام دہشت گردوں کے ظلم کا شکار ہوئے۔ اور چھ سال کے بعد ہارون بلور بھی 10جولائی کی ایک حبس بھری شام خودکش بمبار کے ظلم کا نشانہ بن گئے۔ ظلم کی کہانی وہی ہے ظالموں کے ہاتھ وہی ہیں فرق صرف یہ ہے پہلے باپ اور پھر بیٹا ایک ہی انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ بلور خاندان پر دکھ کی مشکل گھڑی ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ ایک ہی خاندان بار بار اس بھیانک ظلم کا شکار ہوا۔ موت کے سائے خیبر پختونخواہ میں پھیلے رہتے ہیں کہ یہ صوبہ دوسرے صوبوں کی نسبت دہشت گردی کے الائو میں زیادہ جھلسا۔ دہشت گرد مگر اس طرح بلور خاندان کے افراد کا پیچھا کرتے ہوں گے یہ بات حیرانی کی ہے اور بھی زیادہ حیرانی اس خاندان کے جی داروں کی بہادری اور جانبازی پر ہوتی ہے ہر طرح کے الرٹس ‘ تھریٹس اور دھمکیوں کے باوجود بغیر کسی اضافی یا غیر معمولی سکیورٹی کے زندگی کے معمولات میں شامل رہنا کسی عام اعصاب کے مالک شخص کے بس کی بات نہیں۔2012ء میں جب بشیر بلور کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا تو ان دنوں خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی‘ خودکش حملوں کی لہر زوروں پر تھی اے این پی نے ہمیشہ طالبان کے خلاف آواز اٹھائی ہے ہر موقع پر اس ظلم کے خلاف بولے ہیں۔ بشیر احمد بلور ایک بہادر اور جی دار انسان تھے۔ صوبائی وزیر کی حیثیت سے وہ اپنے شیڈول کے مطابق شہر بھر میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے نظر آتے تھے ان پر جو آخری وار ہوا اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے کئی حملے ان پر ہوئے لیکن حضرت علیؓ کے بقول موت زندگی کی حفاظت کرتی رہی بالآخر 22دسمبر 2012ء کو شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں اے این پی کی کارنر میٹنگ میں شرکت سے واپسی پر دہشت گردی کا جان لیوا حملہ ہوا اور بشیر بلور زندگی ہار گئے۔ ان کے صاحبزادے ہارون بلور کی خودکش حملے میں شہادت بھی اسی انداز میں ہوئی۔ وہی شہر کا گنجان آباد علاقہ یکہ توت ‘ اے این پی کارنر میٹنگ اور خودکش بمبار ایسا لگتا ہے کہ سکرپٹ ایک ہی تھا۔ بس چھ سال کے وقفے سے دھرا دیا گیا۔ اس سانحے میں 21افراد شہید ہوئے ایک بدقسمت خاندان ایسا ہے جس کے چھ لوگ اس حادثے کا شکار ہوئے اور ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ پورا خاندان اسی روز ہی اے این پی میں شامل ہوا تھا۔ جماعت کے لیے یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اے این پی والے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ : کوئی روکے یہاں دست اجل کو ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود کش بمبار کا ٹارگٹ وہ خاندان تھا جس کے چھ افراد مارے گئے یا پھر ہارون بلور کچھ بھی ہو اس سانحے نے پشاور پر ایک بار پھر دہشت گردی سے جنم لینے والے خوف سہم اور وحشت کی فضا طاری کر دی ہے۔ ہارون بلور کے صاحبزادے دانیال بلور کے بارے میں شروع میں یہی خبر آئی کہ وہ بھی اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں پھر اس کی تردید آ گئی اور بلور خاندان کا وہ بہادر نوجوان دانیال جس انداز میں میڈیا کے سامنے مخاطب ہوا اور کہا کہ ہم دہشت گردوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں اسے دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ بلور خاندان کی رگوں میں بہادری اور جانبازی لہو کی طرح دوڑتی ہے۔ اے این پی کے لیے اس خونی سانحے کے بعد انتخابی مہم کو معمول کے مطابق چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اس سانحے سے انہیں یہ پیغام بھی دیا گیا کہ وہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں گے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ظلم کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ کچھ عرصہ سے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی لہر تھمی ہوئی تھی۔ انتخابات کا اعلان ہوا تو یہ خدشات موجود تھے کہ انتخابی مہم کے دوران یا الیکشن ڈے پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے بپھرے ہوئے ورکروں میں تصادم ہو سکتا ہے اور اس الیکشن مہم کے دوران میں اسی قسم کے ناخوشگوار واقعات کی توقع کی جا رہی تھی۔ منگل 10جولائی پشاور میں ہونے والے خودکش حملے کے اس خونی سانحے نے یکدم سے حالات کو بدل ڈالا ہے اب خوف اور بے یقینی کی فضا صرف خیبر پختونخواہ میں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کے پورے انتخابی ماحول پرچھا چکی ہے۔ دہشت گرد قوتیں صرف انسانی جانوں سے ہی نہیں کھیلتیں بلکہ انسانی نفسیات میں خوف سہم کے جذبات پیدا کر کے انسانی نفسیات پر ظلم ڈھاتی ہیں۔ اپنے گھروں کے محفوظ ماحول میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذہنوں سے اطمینان سکون اور امن کی کیفیت کو چھین کر اس کی جگہ وحشت اور بے یقینی کے ناسور کو پنپنے دیتی ہیں منو بھائی مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ دہشت گردی کا نشانہ صرف وہی شخص نہیں بنتا جو اس حادثے میں متاثر ہوتا ہے بلکہ ہر وہ شہری جس کے اندر عدم تحفظ اور خوف کی فضا جنم لے وہ اس دہشت گردی کا شکار ہوتا اور یہی دہشت گرد قوتوں کا مقصد ہوتا ہے۔ منو بھائی مرحوم کہا کرتے تھے کہ مجھے منیر نیازی کا یہ شعر ایسی خوف کی فضا دیکھ کر ہی سمجھ میں آیا: اک تیز رعد جیسی صدا سارے شہر میں لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے! اور یہ شعر منیر نیازی کی اسی مشہور زمانہ غزل کا ہے جس کے ایک شعر میں اس دھرتی اور اس دھرتی پر بسنے والوں کم کی نصیبی کی کہانی بیان کی گئی ہے: اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہیے ملتی نہیں امان ہمیں جس زمین پر اک حشر اس زمیں پر اٹھا دینا چاہیے اور اس شہر میں جہاں قدم قدم دہشت گردی کے منحوس سائے‘ انسانوں کی جان کے درپے ہوں وہاں اس بہادری اور شان سے جینا اور مرنا بلور خاندان کا خاصا ہے۔ ب سے بلور۔ ب سے بہادر!