یہ 2005 کی بات ہے جب ایک کتے نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کے دو اہم اداروں کو الجھن میں ڈال دیا۔ دراصل مسئلہ’’بیلکن ‘‘ کا کتا ہونا یا بلغاریہ سے امریکہ آنانہیں تھا مسئلہ یہ بھی نہیں تھا کہ وہ ایک جیتا جاگتا بھاگتا دوڑتا اور بھونکتا ہوا کتا ہے۔ امریکہ میں لگ بھگ نو کروڑ کتے ہیں ان میں ایک بیلکن بھی ہوجاتا تو کسی کتے کا کیا بگڑ جاتا ؟لیکن مسئلہ یوںبن گیا کہ چھوٹا سا پلا بیلکن ایک تحفہ تھا اور دونوں اداروں کے درمیان جاری کشمکش کا سبب اس کا تحفہ ہونا ہی تھا، بیلکن دو ماہ کا چھوٹا سا ،ایک خوبصورت کتا تھا جس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھبے تھے۔ اس کی قیمت کوئی بہت زیادہ نہیں تھی صرف 430 ڈالر تھی یعنی اُس وقت کے حساب سے پاکستانی روپوں میں صرف 25800 روپے اور آج کے حساب سے 97012روپے ، یہ معمولی رقم ہے اور خاص کر دنیا کی سپر پاور کے صدر مملکت کے لئے تو بہت ہی معمولی لیکن نہ جی نہ،یہ معمولی رقم کا تحفہ بڑاہی غیر معمولی تھا کہ اسے ایک ملک کے صدر نے دوسرے ملک کے اپنے ہم منصب کو دیا تھا ۔ بیلکن بلغاریہ کے صدر کی طرف سے امریکی صدر جارج بش کے لئے تحفہ تھا۔ بش جوویسے ہی کتے پالنے کے شوقین ہیں انہیں یہ پلا بھی پسند آیا لیکن باوجود پسندیدگی اورتحفہ قبول کرلینے کہ بش اسے اپنے گھر نہیں لے جاسکے۔ امریکی قوانین ان کی خواہش کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کے توشہ خانے کے قوانین کے مطابق امریکی صدر صرف 305 ڈالر مالیت کے تحائف ہی اپنے پاس رکھ سکتے تھے، اس سے زیادہ مالیت کے تحائف امریکہ کی ملکیت میں چلے جاتے۔ یہاں بیلکن کی قیمت بھی 125 ڈالر زیادہ تھی اس لئے اسے امریکی صدر کو نہیں دیا جاسکتا تھا۔ دوسرا مسئلہ بیلکن کا جیتا جاگتا ہونابھی تھا۔ صدر بش کے عملے نے صدر کو ملنے والے تحائف اپنی تحویل میں رکھنے والے محکمے نیشنل آرکائیوز کو اس تحفے سے آگاہ کیاتاکہ وہ اسے تحویل میں لے لیں ،فون کرنے والے نے کہا کہ ایک پیار ا سا پلا آپ کا منتظر ہے ،دوسری طرف سے پوچھا گیا کہ ’’کیا یہ کتے کا کوئی مجسمہ ہے؟ ‘‘ جواب دیا گیا کہ نہیں یہ مجسمہ نہیں ایک پیارا سا جیتا جاگتا کتا ہے۔۔۔ اور اسی بات پر نیشنل آرکائیوز والے پریشان ہو گئے کہ کیا کریں؟ قواعد و ضوابط کا مطالعہ ہونے لگا۔ سینئراہلکاروں نے سر جوڑ لئے کہ کیا کیا جائے۔ قانون کے مطابق وہ صدر کو ملنے والا کوئی زندہ تحفہ تحویل میں نہیں لے سکتے تھے۔ یہ الجھن اپنی جگہ تھی دوسرا یہاں کتے کی قیمت بھی125ڈالرزیادہ تھی ۔اب قانون خاموش تھااورامریکہ میںقانون کی خاموشی کا مطلب ہمارے یہاں کی سرجھکائے دلہن کے نہیں لئے جاتے اس خاموشی کا خواہشمند کی خواہش کی طرف جھکاؤ نہیں ہوتا ،نیشنل آرکائیوز نے تحفہ قبول کرنے سے معذرت کی جس پر صدر بش کو یہ تحفہ اپنے گھر لے جانا پڑااور انہوں نے قانون کے مطابق بیلکن کی قیمت ادا کی۔ امریکہ پر لاکھ تنقید کریں کہ وہ دنیا میں کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتاسچ یہ ہے کہ اس کی اپنی حدود میں قانون سے طاقتور کوئی نہیں ۔وائٹ ہاؤس میں بیٹھا صدر بھی نہیں۔ وہ اتنا بے بس ہے کہ ملازم کو یہ تک نہیں کہہ سکتا کہ یہ 430ڈالر کا کتاگھر چھوڑ آئے، امریکی قوانین کے مطابق صدر کو ملنے والے تحائف امریکہ کی پراپرٹی سمجھے جاتے ہیں جسے یادگار کے طور پر رکھا جاتا ہے اور اک ہم ہیں ڈھٹائی کی بالائی چاٹ کر سرعام کہتے ہیں میرا تحفہ میری مرضی ! سابق وزیر اعظم اور سابق کپتان نے گذشتہ دنوں لاہور میںنیوز کانفرنس کے دوران ایک بار پھر گھڑی کے معاملے پرا پنا موقف دوہرایا۔ وہ کپتان جو اپنی چڑھتی جوانی یورپ میں گزارنے کے بعد ڈھلتی عمر کے ساتھ ریاست مدینہ بنانے پاکستان آیا تھا وہ ریاست مدینہ کے حکمرانوں کا کردار کیا یاد کرتاوہ ان قانون پسندغیرمسلم حکمرانوںکا طرز عمل بھی بھول گیا جہاں انہوںنے زندگی کے بہترین دن گزارے اور جہاں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ یہ حکمران ایمان لائے بغیراپنے ملکوں میں ریاست مدینہ کا نظام نافذ کر چکے ہیں اور ان کی مثالیں دینے والے ایک بار پھر یوٹرن لے چکے ہیں۔ کپتان نے اپنے موقف کے دفاع میں گذشتہ دنوں لاہور میں پھر کہا ہے کہ میں اپنی ہی گھڑی بیچوں تو اس پر اتنا شور مچے مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ چینلز جو سارا دن عمران خان کی گھڑی کے پیچھے پڑے ہیں مہنگائی پرکیوں خاموش ہیں؟ عمران خان صرف ایک سوال کا جواب دے کرگھڑی کے شور شرابے پرسب کو چپ اور چاروں شانے چت گراسکتے ہیں کہ وہ بتادیں کہ یہ کروڑوں کی گھڑی کسی عمران خان کے لئے تھی یا وزیر اعظم پاکستان کے لئے ؟اس سے کسے انکار کہ بااختیار کے لئے سہولت کار قانون انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے جیسے ان سے پہلے والوں کو تھی کہ وہ کسی بھی تحفے کی طے شدہ علامتی قیمت ادا کرکے اپنے گھر لے جاسکتے ہیں وہ اس قیمتی گھڑی کو اپنی کلائی پر باندھ سکتے ہیں، بیچ سکتے ہیں لیکن اخلاقی طور پر آپ کو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے، جناب عالی ! آپ تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے نہ تھے ۔آپ تو مختلف تھے منفرد تھے ۔ آپ نے تو اس نظام کو الٹنا پلٹنا تھا،مثال بننا تھالیکن آپ بھی زرداریوں ، شریفوں اور ان سے پہلے والوں کے راستے پر چل پڑے اور اس صدیق و فاروق و غنی و حیدر کرار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے راستے سے منہ موڑ لیا ۔کوئی بتائے گا کہ توشہ خانے پر ’’جائز‘‘ نقب لگانے والے سابقین اور کپتان میں کوئی فرق رہا ؟ ان کا بھی سر کڑھائی اور انگلیاںگھی میں تھیں آپ نے بھی خاموشی سے سرکڑھائی میں ڈالے رکھا ۔اب آپ کی انگلیوں سے گھی ٹپک رہا ہے اورلوگوں کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو غلط کیا ہے ؟سو باتوںکی ایک بات آپ نے اپنے اور اپنے مخالفین کے خلاف فرق ہی مٹا دیا۔ جیسے وہ ویسے آپ !! ٭٭٭٭