لیجیے وزیراعظم نے بلاول بھٹو کی حالیہ مہم جوئی کا مثبت جواب دے دیا اور غربت مٹاؤ پروگرام اور پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کا اعلان کرکے پیپلزپارٹی کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان ہائی جیک کرلیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جس پس منظر میں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کا اساسی دلآویز نعرہ لگایا تھا اس سے عمران خان کا نعرہ قدرے مختلف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے دور آمریت میںجب پیپلزپارٹی کی داغ بیل ڈالی تھی تو سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ خاصا مختلف تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے طالب علم ہونے، انتہائی ذہین و فطین اور کرشماتی شخصیت ہونے کے ناتے یہ سمجھ گئے تھے کہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کس قسم کے پروگرام کا اعلان کیا جائے۔ بھٹو جو جلسوں میں عوامی تقریر کرنے اور پڑھے لکھے سامعین کی تقریبات میں انتہائی سنجیدہ اور پر مغز خطاب کرنے کا ملکہ رکھتے تھے نے ایک موقع پر کہا کہ پاکستان میں (Horizental and vertical )عمودی اور افقی پولرائزیشن اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے گویا کہ چند ہاتھوں میں ارتکاز دولت ہونے کی وجہ سے چند امیروں اور کروڑوں غریبوں کے درمیان خلیج وسیع تر ہو گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بائیس خاندان ایوب خان کے اقتصادی مشیر ڈاکٹر محبوب الحق کی ’ٹرکل ڈاؤن تھیوری‘ پر عمل کر رہے تھے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان اور پنجاب کے مقابلے میں مغربی پاکستان کے دوسرے علاقوں میں غربت اور پسماندگی انتہا تک پہنچ چکی تھی۔ بھٹو کا تجزیہ اس لحاظ سے درست تھا کہ بعدازاں اس قسم کے عوامل کی بنا پر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں یحییٰ خان جیسے ناعاقبت اندیش جرنیلوں، نااہلی اور بھارت کی جارحیت کا گہرا دخل تھا۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ خود جاگیردار تھے، انھوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ تو ضرور لگایا لیکن محض غریب کو شعور اور اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ دلا سکے۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے، سوائے اس کے کہ بندہ مزدور کے اوقات اب بھی تلخ ہیں۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ وہ روٹی، کپڑا، مکان اور صحت و تعلیم جیسے بنیادی حقوق دینے کے لیے آئین میں تر میم لے کر آئیں گے۔ ’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘۔ لیکن ایسی بنیادی ضروریات جن کو فراہم کرنے کا ریاست کابنائے وجود ہوتا ہے محض آئینی ترمیم سے نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھر میں غربت اور افلاس مٹ چکی ہوتی۔ خواتین کے لیے سیونگ اکاؤنٹس، پسماندہ طبقات کے لیے دی گئی رقم میں اضافہ، غریب خواتین کو بکریاں اور مرغیاں دینے کے فیصلے اور بے سہارا افراد کے لیے پناہ گاہیں بنانا سب مثبت فیصلے ہیں۔ عمران خان نے یہ اعلان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور poverty alleviation کی چیئرمین سابق وفاقی وزیر محترمہ ثانیہ نشتر کے زیراہتمام تخفیف غربت پروگرام تقریب میں کیا۔ محترمہ سردار عبدالرب نشتر کے خاندان کی بہو اور انتہائی قابل اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ وہ میرے ساتھ 2013ء میں عبوری حکومت میں پبلک ہیلتھ ایجوکیشن و سائنس کی وزیر بھی رہیں۔ جس بے نظیر انکم سپورٹ کی وہ سربراہ ہیں اس کا میں بھی ڈاکٹر عشرت اور شوکت ترین کیساتھ بورڈ کا رکن رہا ہوں، یہ ایک انتہائی کامیاب پروگرام تھا۔ جب 2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اسحق ڈار نے بطور وزیر خزانہ اس پروگرام کو ٹھپ کرنے کی کوشش کی پھر انھوں نے اس کا نام تبدیل کر نے کی کوشش کی لیکن ورلڈ بینک نے اس پروگرام کا جائزہ لینے کے بعد اس کے لیے مزید رقم بھی مختص کردی۔ ورلڈ بینک کے مطابق غریب کو سیفٹی نیٹ دینے کے لیے یہ ایک انتہائی کامیاب پروگرام تھا۔ طوعاً وکرہاً اسے جاری رکھنا پڑا اورپیپلز پارٹی کی فرزانہ راجہ کی جگہ مریم نواز کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور پھرماروی میمن اس کی چیئرپرسن بنیں۔ قابلیت کے لحاظ سے ڈاکٹر ثانیہ نشتر اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔ اس پروگرام کے تحت سیفٹی نیٹ کے علاوہ وسیلہ روزگار، انشورنس اور تعلیم کے پروگراموں کو جتنی بھی رقم دی جائے وہ کم ہے۔ لیکن اس قسم کے پروگرام صرف غربت کی اذیت پر کسی حد تک ہی پھاہا رکھ سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں غربت پر اس وقت ہی قابو پایا جاسکتا جب ملکی معیشت ترقی پذیر ہو۔ سٹیٹ بینک کے تازہ اندازوں کے مطابق رواں مالی سال میں ملک میں شرح نمو 3.5 سے 4 فیصد سے زیادہ نہیں ہو رہی ہے۔ یہ اگرچہ آبادی میں اضافے سے تھوڑی زیادہ ہے لیکن غربت کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ خدشہ ہے کہ موجودہ اقتصادی بدحالی میں غربت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہو گا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNDP کے مطابق پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HOI) کے مطابق غریب ترین کے بجائے درمیانے درجے کے ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن اس پیمانے پر پاکستان کا نمبر 150 واں ہے، جبکہ بنگلہ دیش کا 130 اور بھارت کا 136 واں ہے۔ یقینا اصل مسئلہ بھی نہ صرف اقتصادی ترقی ہے بلکہ علاقائی لحاظ سے بھی متوازی ترقی ہے جس سے پاکستان کے تمام علاقے اور عوام مستفید ہوں۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان، سندھ اور خود پنجاب کے دور افتادہ علاقے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بلوچستان معدنیات میں امیر ترین گنا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس معدنی دولت کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے نکالا نہیں جاسکا۔ تانبے کے ذخائر کی مائننگ کا ٹھیکہ چلی کی بہت بڑی فرم ریکو ڈک کو دیا گیا لیکن مخصوص مفادات کی بنا پر اس پر کام نہ ہو سکا اور ٹھیکہ منسوخ کردیا گیا۔ بعدازاں عالمی ثالثی عدالت سے پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کردیاگیا۔ اب بھی بلوچستان سے معدنی دولت نکالنے کے لیے یہ منصوبہ فٹ بال بنا ہوا ہے اور بعض ایسے ادارے جن کو اس قسم کی پیچیدہ کان کنی کا کوئی تجربہ نہیں ہے مصر ہیں کہ یہ ٹھیکہ ہمیں ملے یا کسی کو نہ ملے۔ جب تک مخصوص مفادات اپنی اپنی آبیاری کرتے رہیں گے اور حکمرانوں کا فوکس حقیقی ترقیاتی جہت کے بجائے محض نعرے بازی کی طرف ہو گا غربت اور جہالت کوکم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیںہو گا اور یہی پاکستان کاسب سے بڑامسئلہ ہے۔