کچھ درد کی ٹیسیں ہیں کچھ درد و فغاں بھی ہے کچھ بات بھی مجھ میں ہے کچھ طبع رواں بھی ہے کچھ بات ہے سینے میں مشکل ہے جو جینے میں اک لمحہ عیاں بھی اک لمحہ نہاں بھی ہے ابھی ابھی ایک شعر ثاقب امروہی کا نظر سے گزرا تو اچھا لگا کہ کوئی ہمزباں و رازوداں نکلے ’’خدا نے کیوں دل درد آشنا دیا ہے مجھے، اس آگہی نے تو پاگل بنا دیا ہے مجھے‘‘۔ساغر یاد آ گیا کہ فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر۔یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے۔ کریں تو کیا کریں جائیں تو کہاں جائیں۔ وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں۔عدیم نے کہا تھا غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں۔آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر۔ ڈگڈگی بجتی چلی جا رہی ہے اور تماشہ جاری ہے ایک منظر دکھایا جا رہا ہے ایک چھپایا جا رہا ہے۔ لوگ مبہوت ہیں ابھی ایک منظر پٹرول کا سب نے دیکھ لیا کہ حکومت کس قدر بااختیار ہوتی ہے کہ دو دن پٹرول بند ہو جائے تو زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے۔ شاید یہ بتانا مقصود تھا وگرنہ مطالبہ تو پہلے بھی مانا جا سکتا تھا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پٹرول پر تمام ٹیکس ختم کر دیے گئے ہیں اور یہ احسان عوام پر چڑھایا ہے کہ آئی ایم ایف کو بتا دیا گیا ہے مزید ٹیکس نہیں لگا سکتے۔ یہ سب جمع خرچ اور بقول مشتاق احمد یوسفی جھوٹ کی تیسری قسم بجٹ کا گورکھ دھندا ہے۔یعنی اعداد و شمار: بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں میں نے تو اپنے انداز میں بات سمجھائی ہے کہ ہم سے تو حالات کی بات کرو۔یہ کیا لطیفہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ مسئلہ غریب نہیں مہنگائی ہے۔ لوئر مڈل کلاس پس رہی ہے میرا خیال ہے کہ کوئی بھی نہیں پس رہا صرف سرکاری ملازمین کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔تاجر کے تو کہنے ہی کیا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ وہ اپناکام بھی دکھا جاتا ہے۔مزدور مزدوری بڑھا دیتا ہے سرکاری ملازم اور خاص طور پرائیویٹ ملازم کہاں جائے گا۔ مالک کو تنخواہ بڑھانے کا کہے گا تو پہلی تنخواہ سے بھی جائے گا۔ یاد رکھئے کہ سرمایہ دار جاگیردار سے کہیں زیادہ ظالم ہوتا ہے حکومت کے کیا کہنے وہ ساری ابتری اور مہنگائی کی ذمہ دار پہلے پچھلی حکومتوں کو گردانتی تھی اب کچھ کچھ سندھ حکومت کا تذکرہ بھی ہونے لگا ہے۔ کہتے ہیں سندھ میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک اور لطیفہ کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ 0.67فیصد مہنگائی کم ہوئی ہے۔خدا لگتی کہیں کہ اس پر آپ ہنسیں کہ روئیں، 18فیصد مہنگائی کے مقابلے میں یہ کیا کمی ہے۔ اونٹ پر لدے بوجھ سے آپ نے چھاننی اتار دی ہے ۔ یہ بے فائدہ سا جھوٹ بھی کیا معنی رکھتا ہے۔ مہنگائی جوں کی جوں ہے مجھے اپنے پیارے دوست طارق عزیر یاد آ گئے کہ کسی نے بتایا کہ وہ 60سال کے ہو گئے ہیں میں نے پاس ہی سے کہا لگتے مگر صرف انسٹھ سال کے ہیں۔طارق عزیر صاحب نے قہقہہ لگایا اور مخصوص انداز میں کہا شاباش اے بھئی بڑی کمی کیتی جے۔پھر عطاء الحق قاسمی یاد آئے کہ جب ان کی تنخواہ 404تھی تو تنخواہ دینے والے نے کہا: تو چار سو کو چھوڑ دے فی الحال چار رکھ پیو ستہ رہ سجر سے امید بہار رکھ مزے کی بات چلی ہے تو ایک اور خبر کا تذکرہ بھی کر دیں کہ مہنگائی کی یکسانیت ختم ہو۔فواد چوہدری نے بیلسٹنگ میزائل کے کامیاب تجربہ پر بات کرتے ہوئے اگرچہ اسے دفاعی قوت میں اضافے کا باعث بتایا وہاں یہ بھی کہا کہ دنیا میں اسلحہ کی بجائے بیانیہ کی جنگ لڑی جا رہی ہے بات تو ان کی مزیدار ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اسلحہ نہ چل سکا بیانیہ چل گیا میرے دل میں خیال آیا کہ کیا کسی بیلسٹنگ میزائل کی بجائے کسی ایسے بیانیہ کا تجربہ بھی تو کیا جا سکتا ہے!اس بات سے میرے ذہن میں جی ٹی روڈ والا بیانیہ بھی آیا۔ویسے ہمارے ہاں تو سب کچھ ہی بیانیہ پر چل رہا ہے۔بیانیہ یہی کہ ’’گھبرانا تو آپ نے بالکل نہیں‘‘: اک نہ اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خود سرہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں چلیئے اپنے قارئین کے ساتھ ایک اور لطیفے کی بات کرتے ہیں۔اس لطیفے سے پہلے ہی آپ کو نہایت دلچسپ واقعہ سنا دوں کہ متعلق رہے گا ایک مرتبہ احمد راہی اپنے گھر کے باہرٹہل رہے تھے اصل میں ان کے گھر چوری ہو گئی تھی اور وہ پریشانی میں باہر ادھر ادھر چلتے ہوئے سوچ رہے تھے۔اتنے میں ہمارے دوست زاہد مسعود جو کہ وہیں رہتے تھے راہی صاحب کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ راہی صاخب خیر تو ہے۔راہی صاحب نے کہا نہیں‘زاہد نے پوچھا کیا ہوا؟احمد راہی صاحب اپنی محض دھیمی آواز میں بولے چوری ہو گئی ہے‘زاہد دوسرا سوال پوچھ لیا کیسے؟راہی صاحب کہنے لگے کیا میں نے کی ہے؟زاہد مسعود بھوچکاں سا ہو گئے اور شرمندگی مٹانے کے لئے کہنے لگے۔میرا مطلب تھا کہ کیا کوئی دروازہ کھلا رہ گیا تھا یا چور دیوار سے آیا وغیرہ وغیرہ۔راہی صاحب اس کی طرف مڑتے ہوئے بولے مینوں تے لگدا اے چوری توی کیتی اے۔ ویڈیو والا معاملہ بھی اس لطیفے جیسا ہے۔ چینل نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا اور ویڈیو بنانے والے کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔مزید لطیفہ یہ ہوا کہ مریم اور خاقان کے خلاف درخواست دے دی گئی کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید اصل میں توہین عدالت ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا فیصلہ سنا کہ سابق چیف جسٹس ریٹائر ہو کر عام آدمی ہو جاتا ہے ۔ویسے آپس کی بات ہے تنقید کوئی بڑی چیز نہیں ہاں بے عزتی نہیں ہونی چاہیے۔مگر بے عزتی کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔سارے لطیفے اپنی جگہ مگر تجارتی خسارے بڑھ رہے ہیں ظاہر ہے ڈالر 178روپے تک جا پہنچا ہے۔چلئے زرمبادلہ کی اہمیت بڑھ رہی ہے آخر میں یعقوب پرواز کا تازہ شعر: لب کشا تھے کیسے کیسے پھول مرے سامنے اب تو اڑتی ہے چمن میں دھول میرے سامنے