بہارہ کہو بائی پاس پراجیکٹ ایک معمے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، ایک طرف اسلام آباد کی انتظامیہ نہ صرف یونیورسٹی کی بلکہ زرعی زمین کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے تو دوسری طرف یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے وہاں جمع ہے اور نہ صرف جمع ہے بلکہ اب توبہت سے شعبہ جات اپنی معمول کی کلاسسز کا انعقاد بھی وہیں پر کر رہے ہیں،یہ اپنے تئیں ایک احتجاج کی الگ صورت ہے جس کو "علمی دھرنے " کا نام دیا گیا ہے ۔گزشتہ دو ہفتے سے جاری اس احتجاج کا مقصد ایک تعلیمی ادارے کی زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی آواز اٹھاناہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقیاتی منصوبے ملک کی خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں لیکن اس وقت ملک جس دوراہے سے گزر رہا ہے وہاں پر بنیادی ضروریات تک ہی عوام کی رسائی مشکل ہے اور یہ اربوںکا پروجیکٹ ایک ثانوی اور اگر یہ کہا جائے کہ غیرضروری حیثیت رکھتا جا رہا ہے تو غلط نہ ہوگا، یہ پروجیکٹ جامعہ پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے جس سے یونیورسٹی کی زمین دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے ریسرچ سنٹرز کا قیامجو کہ یونیورسٹی کے پلان میں شامل ہے، کینسل ہو جائے گا کیونکہ 600 کنال یونیورسٹی کی زمین حکومت اپنے پروجیکٹ کے لیے استعمال کر رہی ہے، جو کہ نہ صرف وسائل کا ضیاع ہے بلکہ ایک یونیورسٹی کی حق تلفی ہے، اس سے پہلے بھی یونیورسٹی کی زمین پر نا جائز قبضہ جات دیکھنے میں آئے ہیں جن کا آج تک حل نہیں نکالا جا سکا اور نہ ہی نا جائز قبضوں کے سد باب کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کی جا سکی ہے، یہ پروجیکٹ بہت سے قبضہ گروپوں کو موقع فراہم کرے گا کیونکہ یونیورسٹی کی زمین دو حصوں میں بٹ کر بائی پاس کے ساتھ کی اراضی کو نقصان پہنچائے گی جس سے قبضہ ما فیا سر گرم ہو گا۔اس کے ساتھ یہ بائی پاس کی تعمیر بھی یونیورسٹی کی زمین کا ایک بڑا حصہ ختم کر دے گی جو کہ مستقبل قریب میں جامعہ کی بہت سی تعلیمی اور تحقیقی سر گرمیوں کو نہ صرف متاثر کرے گی بلکہ ماحولیات کو ایک نا قابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ ایک اہم بات جو کہ انتظامیہ سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ کہ یونیورسٹی کی زمین اور سڑکیں شارع عام نہیں ہیں اور یہاں پر قائم کیے جانے والے پروجیکٹس اسے عام شاہراہ بنا دیں گے، جس سے جامعہ میں سکیورٹی خدشات بھی بڑھ جائیں گے، یونیورسٹی کی باونڈری وال نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی آمدورفت پر پہرہ نہیں ہے ۔ اس سے یونیورسٹی ایک غیر محفوظ جگہ بن جائے گی اور روڈایکسیڈنٹ اور حادثات میں بھی اضافہ ہوگا، جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی کے اندر سے ایک محترم فیکلٹی ممبر کی گاڑی چوری کا معاملہ پیش آیا جو کہ آج تک حل نہیں ہو سکا، اس کے علاوہ بسا اوقات یونیورسٹی سے ملحقہ تھرڈ ایونیو والی سڑک بند ہونے سے ٹریفک کا رخ قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف موڑ دیا گیا، جس سے روڈ حادثات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور کئی طلبہ اس کا شکار بھی ہوئے۔ یہ اور اس طرح کے ماضی کے کئی تلخ تجربات بائی پاس بنانے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہیں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ شش و پنج کا شکار ہے جبکہ طلبہ، اساتذہ اور جامعہ کا عملہ ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔ زندہ اور ترقی یافتہ قومیں تعلیم اور تعلیمی اداروں پر اپنا زیادہ بجٹ استعمال کرتی ہیں، ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے، نہ ہمارا کوئی مناسب تعلیمی بجٹ ہے،یہاں تک کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو تنخواہ دینے کے لیے بھی حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اس صورتحال میں ہم اپنے بجٹ میں سے ایک حصہ اس بائی پاس پر صرف کر رہے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ اس بائی پاس کی مخالف نہیں ہے وہ صرف اور صرف یونیورسٹی کی زمین کے استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ یہاں میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس بائی پاس کی تعمیر پر ایک ذاتی رائے رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت سڑکوں کے نظام کو دیکھا جائے تو سڑکوں کی توسیع اور اضافی پروجیکٹس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ ہمیں صرف اپنی پلاننگ پر توجہ دینی ہوگی، قا ئداعظم یونیورسٹی کے سکول آف سوشیالوجی نے ایچ ای سی کے تعاون سے ایک پروجیکٹ حاصل کیا ہے جس کا بنیادی مقصد سڑکوں کے نظام کو موجودہ وسائل کے ذریعے ہی فعال اور کار آمد بنانا ہے ،جس میں ایک پبلک ٹرانسپورٹ کا مرکزی اور منظم نظام متعارف کروانا ہے اور وہ بھی پہلے سے موجود وسائل کو بروئے کار لا کر، تا کہ ملکی اکانومی کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ پبلک پارکنگ کے مسائل کو حل کرنا ہے، جیساکہ دیکھا گیا ہے اور میں اپنے گزشتہ آرٹیکل میں یہ ذکر بھی کر چکا ہوں کہ بہارہ کہو میں دو سے تین ایسی جگہیں ہیں جو ٹریفک کے بہاو کو متاثر کرتی ہیں جس کی زیادہ تر وجہ غلط پارکنگ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے مناسب روٹ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو جگہ جگہ پک اینڈ ڈراپ دینا ہے جس سے پوری ٹریفک کا فلو متاثر ہوتا ہے۔ تا ہم گرین اور بلیولائن سے یہ مسائل کافی حد تک حل ہوئے ہیں لیکن مکمل طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔یہ بہتری کی طرف ایک اچھا قدم ضرور ہے تاہم پارکنگ کے مسائل فی الحال وہیں پر ہیں۔ اگر ان مسائل کو ایک منصوبہ بندی کے تحت حل کر لیا جائے تو بائی پاس پر بے دریغ پیسہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور یہی رقم ہم ملک کی اکانومی کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔