شاری بلوچ دوبچوں کی ماں تھی۔ تعلیم یافتہ اورسرکاری ملازم بھی۔ یقینا اخبارات اور ٹی وی پر چلنے والی مباحث سے بھی متعارف ہوئی ہو ںگی۔ تاریخ ، آرٹ، ادب اورلڑیچر کی دنیا سے بھی آشنا ہوئی ہو گی۔اس کے باوجود انہوں نے خودکش بمبار بننا قبول کیا۔تین چینی اساتذہ کو ہلاک کردیا اور خود بھی متاع حیات سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ایک خاتون خودکش حملہ آور بنتی ہے تو بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر کیوںوہ اس حد تک گئی؟ سیکورٹی ادارے اس سوال کا جواب مختلف طریقہ سے دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حملے کی منصوبہ بندی کس نے کی۔خودکش جیکٹ کس گروہ نے فراہم کی۔چینی شہریوں کی نقل وحمل کی معلومات کی فراہمی کیسے ممکن ہوئی۔ اس حملے کی نگرانی کون کررہاتھا۔ اوررقم کہاں سے حاصل کی گئی۔اس کے برعکس ہمارے سیاست دان ہمیں بتاتے ہیں کہ بلوچستان کو مزید مالی وسائل فراہم کیے جانے چاہئیں۔ بلوچ طلبہ کو ملنے والے سکالر شپ میں اضافہ کیا جائے۔ سرداروں کو خوش کرنے کے لیے ان کی اسلام آباد اور کراچی میں مزید آو بھگت کی جائے۔بلوچستان میں فوج اور ایف سی کے تازہ دم دستے تعینات کیے جائیں۔ سیاستدانوں اور سیکورٹی کے اداروں سے بھی زیادہ دانشمند طبقہ ایک اور ہے جنہیںجیواسٹریٹجک حکمت کار کہاجاتاہے۔ ان کی رائے ہے کہ بلوچستان سونے کی چڑیا ہے۔ اس کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں امن اور سیاسی استحکام پڑوسی دیسوں، بڑی طاقتوں، حریف ممالک اور حتیٰ کہ دوست ریاستوں کو بھی گوارا نہیں۔پاکستان خوشحال ہوگا تو انہیں سستی لیبر نہیں ملے گی۔ امیر لوگ پاکستان سے پیسہ اکھٹا کرکے دوبئی، لندن اور یورپ کے ممالک میں جائیدادیں خریدنے اور کاروبار میں نہیں لگائیں گے۔ منی لانڈرنگ سے کئی ایک ممالک نے اپنی معیشت کی فلک بوس عمارات تعمیر کی ہیں۔گوادر بندرگاہ پر روزانہ درجنوں نہیں سینکڑوں بحری جہاز لنگرانداز ہوں گے تو پڑوسی بندرگاہوں کا کاروبار ماند پڑھ سکتاہے ۔ یہ تصور ان کی رات کی نیندیں حرام کردیتاہے۔ ایسی بے شمار تھیوریاں ہیں جو ہرگزبے وزن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اقدامات پہلے نہیں کیے گئے؟ ایف سی پہلے ہی موجود ہے۔ سیکورٹی اداروں کی موجودگی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔ بلوچ سرداروں کی خدمت خاطر میں کبھی بھی کوئی کسر نہیں اٹھائی گئی۔ سکالرشپ دیئے گئے لیکن ناراض بلوچوں میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ناراضی اور بیزاری کے خاتمے کے لیے مختلف حکومتوں نے اربوں نہیں کھربوں روپے خرچ کیے لیکن بلوچستان کو قرار نہ آسکا۔تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد ایک آدھ حادثہ ایسا ہوجاتاہے کہ سیاسی استحکام اور امن وامان کا تاثر ہوا ہوجاتاہے۔ تحقیق، تجربات اور مشاہدات کے بعد دنیا کے نامور محققین نے بتایا ہے کہ متاثرہ خطوں کے شہریوں، خواتین، نوجوانوں، تاجروں اور دانشوروں کو تنازعات کے حل میں شریک کیے بغیر کسی بھی مسئلہ کا دیر پاحل تلاش نہیں کیاجاسکتا ہے۔تنازعات کے حل کے لیے ایسا سازگار ماحول درکار ہوتاہے جہاں ہر کوئی اپنے آ پ کو شراکت دار تصور کرے۔دہائیوں پر محیط سیاسی تنازعات کی اساس یا جہت تبدیل کرنے کے لیے، صبر، حکمت عملی، وقت اور محنت درکار ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ لوگ پرانے زخم بھول کر نئے زمینی حقائق قبول کرنے لگتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے متحارب بیانیے بھی لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرتے رہتے ہیں۔ قومی میڈیا اور بلوچستان کا مقامی میڈیا عمومی طور پر مختلف ایشوز پر متضاد نقطہ ہائے نظر پیش کرتاہے۔ایک ترقی اور خوشحالی کی داستان سناتاہے اور دوسرا محرومیوں اور ناکامیوں کی داستان بیان کرتاہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والا بیانیہ سب سے زیادہ طاقتور ہے جوعام لوگوں کے مسائل اور مصائب کی مایوس کن تصویر پیش کرتاہے۔عام بلوچ نوجوان عمومی طور پر اسی بیانیہ کا اسیر ہے جو سوشل میڈیا اور واٹس اپ گروپوں میں گردش کرتاہے۔ روزہ مرہ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں معلومات اور آگہی عام بلوچ شہری سوشل میڈیا سے حاصل کرتاہے۔شاری بلوچ بھی سوشل میڈیا اور سینہ گزٹ سے پھیلائی گئی کہانیوں سے متاثر ہوئیں۔ انہیں بھی بلوچوں کی مظلومیت کے واقعات سنائے گئے۔ کچھ ناخوشگوار ذاتی تجربات بھی ہوئے ہوں گے۔ جنہوں نے اسے خودکش حملہ آور بننے پر مجبور کیا۔ سیاست دان اور سیکورٹی سے متعلقہ اداروں سے وابستہ افراد عمومی طور پر تنازعات یا سیاسی ایشوز کا حل معاشی پیکیج یا سیاسی اصلاحات میں تلاش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک بار خلیج پیدا ہوئی وہاں معاشی پیکیج یا سیاسی اصلاحات سے عام لوگ مطمئن نہیں ہوتے بلکہ ایسے پیکیجز سے ریاست ایک اور مراعات یافتہ طبقہ پیدا کردیتی ہے جو سب اچھا کی رپورٹ دے کر ریاستی وسائل اینٹھتا ہے۔ عام شہریوں کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ سیاسی اصلاحات کے نام پر اپنے عزیز واقربا کو نوازتے ہیں۔ سکالرشپ جو سرکار کے خزانے سے دیئے جاتے ہیں ان کا حال بھی اس محاورہ کی مانند ہے: اندھا بانٹے ریوڑیاں وہ بھی مڑمڑ اپنوں میں۔ پاکستانی حکام کو عام بلوچ شہریوں تک ترقی کے ثمرات پہنچانے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے غیر روایتی اور تخلیقی اقدامات کرنے ہوں گئے ۔ معاشی منصوبو ں کے ثمرات کو عام شہریوں کے دروازے تک منتقل کیے جانے کے لیے حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ انہیں گوادربندرگاہ کی تعمیر، کراچی سے کوئٹہ تعمیر ہونے والی شاہرات اور درجنوں دیگر منصوبوں میں اپنا مفاد نظر آنا چاہیے۔ ہر منصوبہ عام شہریوں کو براہ راست فائدہ پہنچاتاہوا نظرآنا چاہیے نہ کہ مخصوص مراعات یافتہ طبقہ کو۔ متوسط طبقہ کے دائرہ کو بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ شعوری طور پر ریاستی اداروں کو کوشش کرنی چاہیے کہ خوشحالی کا دائرہ بڑھے۔ اس دائرہ میں نچلے طبقے کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے۔ شہریوں اور ریاستی اداروں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ ہر سطح پر سرکاری دفاتر کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھولے جائیں۔شہریوں کی رسائی اعلیٰ حکام تک ہوگی تو وہ سرداروں اور نوابوں کے خوف سے آزاد ہوجائیں گے۔ان میں خود اعتماد ی آئے گی۔ حرف آخر: عام بلوچ شہریوں کے ساتھ قومی سطح پر مسلسل مکالمے کی ضرورت ہے۔ انہیں قومی ایشوز میں انگیج کیا جانا چاہیے تاکہ وہ مقامی مسائل اور تنازعات سے اوپر اٹھ کر قومی معاملات میں دلچسپی لیں ۔ایسے بلوچ خواتین اور حضرات کو قومی سطح پر رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے جو اپنی محنت اور ذہانت کی بدولت قومی یا عالمی سطح پر ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تاکہ لوگ انہیں آئیڈیلائز کریں نہ کہ شاری بلوچ کو۔ریاست اور سول سوسائٹی کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ کل کوئی ماں خودکش بمبار نہ بنے۔ کوئی استاد دوسروں کی جان لینے کے لیے تیار نہ ہو۔