پنجاب’ایک کروڑ سے زائد افراد کو’’ویکسینیٹ‘‘کرنے والا اولین صوبہ،جہاں ایک کروڑ‘ایک لاکھ افراد ’’کورونا ویکسین‘‘ سے استفادہ کر چکے ہیں۔پنجاب میں سردست 6کروڑ 70لاکھ افراد اس وقت،اس ویکسین کے مستحق ہیں‘صوبہ میں ایک مربوط نظام کے تحت‘روزانہ کی بنیاد پر دو لاکھ کے قریب شہریوں کو یہ سہولت پہنچائی جا رہی ہے۔ پنجاب کے معروف مزارات پر بھی 38ویکسینیشن مراکز قائم ھوچکے ہیں۔وزیراعلی پنجاب کی قیادت میں،صوبے کی ہیلتھ منسٹر‘چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر‘سیکرٹری اوقاف سمیت متعلقہ کے ذمہ داران تندہی اور جانفشانی سے حفظان صحت کے اہداف کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں۔ دودن پہلے،جمعتہ المبارک کی سہ پہر ’’کیبنٹ کمیٹی برائے انسدادڈینگی‘‘کا اجلاس اْسی کمیٹی روم میں تھا،جہاں چند دن پہلے تک’’کابینہ کمیٹی برائے کوویڈ‘‘کی روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز ہوتیں اور متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز،ایک ایک ضلع کا مفصل جائزہ پیش کرتے،پھر موصولہ اعدادو شمار کی روشنی میں،حکمت عملی کو مزید موثر بنانے کے لیے مستعد ہوجاتے،ابھی کورنا کے اثرات پوری طرح معدوم نہ ہوئے ہیں کہ مون سون کی آمد کے سبب ڈینگی کے خدشات بلکہ خطرات منڈلانے لگے،جس کی تاکید و تلقین کیلیے موجودہ میڈیائی دور میں بہت سے فورم ہیں،مگر تاثیرو تنفیذ کیلیے،اب بھی محراب ومنبر ہی کو موثر و معتبر جانا اور ماناگیا ہے اور ریاستی و حکومتی سطح پر ایک ہمہ پہلو ہدایت نامہ بھی جاری کردیا گیا،جسکے مطابق ’’ڈینگی‘‘سے بچائو کی حفاظتی تدابیر کی بابت آگاہی مہم ایک مؤثر اور مربوط لائحہ عمل کے ساتھ روبہ عمل ہے،جس میں محراب ومنبر اپنا کلیدی اور اساسی کردار ادا کر یں گے۔جس میں بطورِ خاص یہ تاکید اور تلقین ہے کہ مساجد ،مزارات،مدارس اور قبرستان وغیرہ میں’’ڈینگی‘‘سے بچائو کی بابت جملہ تدابیر کو پوری سپرٹ کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ نیزعوام الناس کو بھی آگاہی دیں،مزید یہ کہ مساجد،مزارات اور قبرستان وغیرہ میں کبوتروں اور دیگر جانوروں کو پانی پلانے کے لیے کنالیاں وغیرہ رکھی جاتی ہیں،محکمہ صحت حکومت پنجاب کی ہدایت کے مطابق پرندوں کو پانی پلانے والی کنالی وغیرہ میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ان کنا لیوں کی کم ازکم ہر تیسرے روز لوہے کی جالی سے دْھلائی کی جائے،دفاتر ومساجد و دیگر مقامات میں لگے روم کولر وغیرہ جب استعمال میںنہ ہوں،تو ان میں سے پانی خارج کردیں۔ مساجد،مزارا ت و دیگر مقامات وغیرہ میں موجود گملوں کے اندر پانی کھڑا نہ ہونے دیں،بعض قدیم مساجد ومزارات میں پانی کے حوض اور فوارے بنے ہوئے ہیں،محکمہ صحت حکومت پنجاب کی ہدایت کے مطابق ان فواروں اورکھلے حوضوں کا پانی نکال کر انہیں خشک کردیںیا ان حوضوں میں ہر سات روز کے بعد بلیچ ڈالیں،پانی کی ٹینکیوں کو صحیح طریقے سے ڈھک کر رکھیں،نیز گٹر کے ڈھکن وغیرہ میں بنے سوراخوں میںپانی کھڑا نہ ہونے دیں۔مساجد ،مزارات میں وضوخانہ کو بالخصوص صاف رکھا جائے ،چھتوں یا دیگر کھلے مقامات پر کاٹھ کباڑ میں برسات کا پانی جمع نہ ہونے دیں،ایئر کنڈیشنوں سے خارج ہونے والے پانی کی Disposalکویقینی بنائیں،مساجد ومزارات میں سفید کی بجائے پیلے رنگ کی لائٹوں کا استعمال زیادہ کریں،مساجد ،مدارس اور مزارات میںحسب ضرورت اعلانات کا سلسلہ شروع کیاجائے تاکہ عوام الناس کو ڈینگی مچھر کے حوالے سے مکمل آگاہی ہوسکے اوربذریعہ اعلانات لوگوں تک ڈینگی مچھر سے حفاظتی تدابیر بھی پہنچائی جائیں،ڈینگی کا سروے کرنے والی ٹیموں سے تعاون کریں،خطیب صاحبان ڈینگی مچھر سے بچائو کیلیے خطبہ کے اختتامی لمحات میں اپنے سامعین کو چند ہدایات ضرورفرمائیں۔حکومت پنجاب نے اس سلسلہ میں کوتاہی کو جرم قرار دیا ہے جس پر باقاعدہ سزا تعین ہے۔لہٰذا اس سلسلہ میں قطعاََ کوتاہی نہ کی جائے۔ یہ تو تھیںوہ خصوصی ہدایات جن کا سرکاری سطح پر بطور خاص مساجد،مدارس اور مزارات کے لیے اجرأ عمل میں آیا ہے، اب معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر‘ کس قدر باریکی بینی کے ساتھ توجہ طلب امور کا تعین ہوا‘ اوقاف و مذہبی امور کی طرح ،دوسرے ادارے بھی اپنے اپنے دائرے میں سرگرم عمل پائے گئے‘چلتے ہیں ذرا دوسرے معاملے کی طرف ،گزشتہ دنوں اسی موقر جریدے کے ایک ذمہ دار’’کوویڈ ویکسینیشن‘‘کے حوالے سے عوامی طرزِ عمل کی بابت لب کشا ہوئے ،تو ان کی بہت سی باتوں کو صائب پایا،اسکے لیے بھی اہالیان ِ مسند ارشاد کی اعانت و سرپرستی موثر نتائج کا باعث ہوسکتی ہے۔ بالخصوص ایسے ماحول میں جبکہ اس خطرناک مرض کی چوتھی لہر کے خطرات منڈلانا شروع ہوگئے ہیں،جس کا سبب وہ وائرس ہے،جو بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے کو ہے،اس کے تباہ کن اثرات سے ہمسایہ ملک نبردآزما،بلکہ قدرے پسپا ہے۔دوسری طرف ویکسین کے حوالے سے بحث کے کئی پہلو ہیں،جو کسی نہ کسی طرح اور کہیں نہ کہیں زیر بحث رہتے ہیں،اسلامی نظریاتی کونسل سمیت افتأ کے دیگر مراکز نے کرونا ویکسین کی تیاری کے جملہ مراحل کے مفصل جائزے کے بعد،بغیر کسی تذبذب و تشکیک اسکے استعمال کی اجازت دی ہے ، چونکہ یہ ساری بحث ماہ ِ رمضان کی آمد آمد، کے دنوں میں تھی ، چنانچہ اس پر بھی فتویٰ جاری کیا گیا کہ اس ویکسین سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، علمأ کرام، ملکی و ریاستی اشرافیہ و علمی اشرافیہ نے بیک زبان نہ صرف اس کی تاکید و تلقین کی ، بلکہ عوامی طور پر خود کو ویکسینیشن کے عمل سے گزرنے کی ویڈیوز بھی جاری کیں ، تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہوسکے۔ دستیاب و دستکار جملہ ویکسین ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی مصدقہ و متفقہ ہیں، لیکن بعض قومی وبین الاقوامی رویے اور پالیسیاں کنفیوژن کا باعث ہیں، ہمارے ہاں ابتدائی طو رپر چائنہ کی ویکسین کی ترسیل شروع ہوئی اور لوگوں نے نہایت اطمینان سے اس سے استفادہ کیا، لیکن یکایک برطانیہ کی فائزر کا گراف اوپر چلا گیا کہ با لخصوص سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں اس چینی ساختہ ویکسین کو قابل ِ اعتنا نہ جانا،جبکہ یوکے کی ویکسین کو پذیرائی میسر آئی،حالانکہ یہ امور حکومتی اور سفارتی سطح پر طے کیے جاسکتے ہیں۔ اتفاق کہ جن دنوں ، مجھے ، ایکسپوویکسینیشن سنٹر، ویکسین کے لیے جانے کا موقع ملا،تو ان دِنوں سائنو فام وغیرہ آوٹ آف سٹاک تھی ، اور صرف فائزر ہی دستیاب تھی،مجھے تو’’چوائس‘‘کا اتنا مسئلہ بھی نہ تھا، نہ ہی اس پر میری اتنی معلومات ہیں،موقع پہ جو موجود تھی،لگوالی،مگر متضاد آرأ تو دو ماہ قبل،اس وقت بھی سننے اور جاننے کو ملی،کسی نے کہا کہ یہ اچھی ہے اور کسی کے تاثرات مختلف تھے ، بہر حال اب صورتحال یہ بھی ہے کہ قوم کا معتدبہ حصہ اس کے لیے تیار ہے ، جس کے لیے اْمید ہے کہ یہ قائم کردہ مراکز بھرپور انداز میں سرگرمِ عمل ہوجائیں گے ، اس لیے کہ اس مرض سے محفوظ و مامون رہنے کا اس کے علاوہ کوئی اور حل ممکن نہ ہے ، جیسا کہ امریکی صدر بھی اپنے ملکی شہریوں کو اس کی تلقین یہ کہہ کر ، کررہے ہیں کہ جنہوں نے ویکسین نہ لگوائی وہ کوویڈکے پھیلائو کا ذریعہ ہوں گے حالانکہ وہ اپنی آبادی اور ملک کے لیے سوفیصد کا ہدف حاصل کرنے کے قریب بلکہ قریب ترہیں،یعنی ان کے ہاں، ان کی اسّی فیصد آبادی اس سے استفادہ کرچکی ہے ، جبکہ ہم تو ابھی تک بالکل اوائل سطح پر ہیں۔ بلکہ عوام اور سرکاری اداروں کا جوش و خروش ملکی آبادی کو یقینا ان خطرات سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ہمارے محکمے یعنی اوقاف و مذہبی امور نے بھی مزارات و مساجد میں’’ویکسینیشن مراکز‘‘قائم کرلیے ہیں ، ان مقدس مقامات کومعاشرے اور معاشرت کا مرکز اور محور بنانے کی ایک سعی کی ہے۔ صوفیا و اولیأ کے مزارات۔۔۔رحمتِ خداوندی اور دین و حکمت کے ورود وموعودکے مقامات ہیں،یہاں سے اس عمل کی ترویج و تشہیر، اس کارِخیر میں مزید بر کت کا باعث ہے۔اس کے ساتھ ہمیں ان ایس اوپیز پر بھی مستعد اور مستحکم رہنا چاہیے ، جن سے آج کل ہم قدرے بے نیاز ہو رہے ہیں، ماسک کا اہتمام بتدریج کم ، ہینڈ سینی ٹائرز معدوم اور سماجی فاصلے کے تکلف سے آزاد ی پانے کی طرف مائل ہیں۔ جبکہ ہر شہری کو اپنی اپنی جگہ احتیاط و ارتکاز پر کاربند رہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس پر استقامت کی تلقین کرنی چاہیے۔