پارلیمنٹ کے ایوان بالاکے نئے ارکان کے انتخابات اور بعدازاں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن جس انداز سے ہوئے اس سارے عمل میں اپوزیشن ا وو حکومت دونوں فریق جیت گئے لیکن جمہوریت کو شکست ہوگئی۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ سیاسیات اور اخلاقیات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، لیکن درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ سیاستدانوں کی تمام تر قلابازیوں کے باوجود سیاست کی بنیاد بھی اخلاق ہی ہوتی ہے جس کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اگرچہ اپوزیشن کو تکنیکی طور پر حکومت کے 48 ووٹوں کے مقابلے میں3 ووٹ کی برتری تھی تاہم اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ ان کے 7 ووٹ مسترد ہوئے جبکہ حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈپٹی چیئرمین کے لیے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے مرزا محمد آفریدی 98 میں سے 54 ووٹ لے کر منتخب ہوئے،پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری 44 ووٹ لے سکے۔ پریزائیڈنگ افسر سید مظفر علی شاہ کے مطابق یہ 7ووٹ اس بنا پر مسترد کیے گئے ہیں کہ ان میں ووٹروں نے یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگائی ہوئی تھی، حالانکہ سامنے والے خانے میں لگائی جانی چاہیے تھی۔ اپوزیشن اور بعض تجزیہ کار الزامات لگارہے ہیں چونکہ مظفر شاہ کا تعلق حکمران اتحاد کی پارٹی جی ڈی اے سے ہے اس لئے انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا،مزید برآں پرانے پارلیمنٹیرین ہونے کے ناطے وہ ایسے دائوپیچ بخوبی جانتے ہیں اور اسی لئے صدر مملکت عارف علوی نے انہیں پریزائیڈنگ افسر تعینات کیا۔بعض ناقدین نے مظفر شاہ کے بطور پریزائیڈنگ افسر کردار پر تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہوئے بغیر اپنی رائے سنا دی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے مظفرشاہ مقتدر حلقوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا اپوزیشن کے ووٹروں نے ہی ووٹ خراب کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا یا ان سے نادانستہ طور پر غلطی ہوئی۔ اپوزیشن نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آیا یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے دائرہ کار میں ہے یا نہیں، یہ تو قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم سینیٹ کے سابق چیئرمین وسیم سجاد جو کئی برس تک سینیٹر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ایسے ووٹ کی غلطی کوپریزائیڈنگ افسر درگزر کر سکتا ہے اور اس حوالے سے ان کے اپنے فیصلے موجود ہیں،معاملہ جو بھی ہو اس میں ووٹر کی نیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ بہرحال وزیراطلاعات شبلی فراز کا یہ کہنا کہ حکومت چیئرمین الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گی، درست ثابت ہوا اور جو خدشہ تھا و ہی ہوا۔ اس حوالے سے تمام منصوبہ بندی کا انکشاف پولنگ کے روز جمعہ کو علی الصبح ہی ہو گیا جب اپوزیشن کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور مصدق ملک نے پولنگ بوتھ میں کیمرے نصب ہونے اور مائیک کی موجودگی کا انکشاف کیا اور انہوں نے عملی طور پر کیمروں کو بھرے ایوان اور ٹیلی ویژن کے سامنے رکھ دیا۔ بیچ چوراہے ہنڈیا پھوٹنے پر حکمران جماعت کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جاسکا بلکہ اس کا الزام بھی اپوزیشن پر تھونپ دیا گیا اور یہ بھی درفطنی چھوڑی گئی کہ چونکہ اپوزیشن جماعتوں کا سرکاری دفاتر میں بڑا اثر ہے اس لئے یہ انہی کی کارستانی ہے،تاہم اس کی تحقیقات کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے تین تین ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ یہ کیمرے شاید اس لیے نصب کیے گئے ہونگے کہ واقعی خان صاحب کو اپنی پارٹی کے سینیٹرز پر اعتبار نہیں تھا۔مزیدبرآںکیمروں کی تنصیب کے ذریعے سینیٹرز کو بلاواسطہ طور پر پیغام دیا گیاکہ ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالنا، بڑا بھائی تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اسلام آباد میں اس بات کی بھی باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ حکمران جماعت کے سینیٹرز سے ایک اجلاس میں قرآن پاک پر حلف بھی لیا گیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے بعدمسلم لیگ (ن)کے رہنما طلال چودھری نے بلاول بھٹو سے پوچھا کہ آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سینیٹ انتخابات میں غیر جانبدار رہی ہے۔ دراصل قانون سازی اور آئین میں ممکنہ ترمیم کے لیے ایوان بالا کارول کلیدی ہے، سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے ایک ایسے ایوان میں جہاں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے وہاں اپوزیشن کے سرکردہ رہنما یوسف رضا گیلانی چیئرمین ہوں، حکومت کیسے تسلیم کر سکتی ہے- یوسف رضا گیلانی کے چیئرمین بننے سے حکومت کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ آسکتی تھی۔ اب بھی معاملات آسان نہیں ہونگے کیونکہ تکنیکی طور پر ایوان بالا میں اپوزیشن کو معمولی اکثریت حاصل رہے گی۔ مثال کے طور پر 18ویں ترمیم موجودہ شکل میں مقتدر قوتوں اور سرکاری حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس میں مزید ترمیم کے لیے ایوان بالا کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ساتھ بقائے باہمی ضرورت ہے جس کا قطعاً فقدان ہے لیکن اس حمام میں اپوزیشن بھی کوئی پوتر نہیں ہے اس نے سینیٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی میں 16 ووٹوں کے ہیرپھیر سے منتخب کروا کر وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو شکست سے دوچار کیا۔ سینیٹ کی اس تمام ایکسرسائز سے وزیراعظم عمران خان کی سینیٹ انتخابات میں خفیہ بیلٹ ختم کرنے والی تجویز کسی حد تک درست لگتی ہے۔ لہٰذا اپوزیشن اور حکمران جماعت کو مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ آئندہ کے لیے سینیٹ کے انتخابات میں شفافیت آئے اور یہ انتخابات طالع آزمائوں کے لیے لوٹ سیل نہ بن جائیں۔