زندگی کی طرح اقتدار کی کرسی بھی بے وفا ہوتی ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اگست 2018ء میں عمران خان نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے ڈیرہ غازی خان کے ایک انتہائی پسماندہ علاقہ بارتھی، تونسہ سے تعلق رکھنے والے ایک غیر معروف سیاسی شخصیت سردار عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب کیا تھا۔ عثمان خان بزدار جو پہلی مرتبہ ایم پی اے بنے تھے جنہیں لاہور کے محل وقوع اور رنگینیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا وہ تو صرف پہلی مرتبہ ایم پی اے بننے پر خوش تھے کہ قدرت ان پر ایسی مہربان ہوئیسو نے پہ سہاگہ ان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ بخش دی۔ جسے تاریخ ٹھہر گئی ہو اور جیسے باد نسیم نے صحرا کا رخ کرلیا ہو کیونکہ واقعی ایک صحرائی اور پہاڑی بلوچ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا تھا کہ جس کی پشت پر نہ تو کوئی بڑا سیاسی گروپ تھا جو خود بھی سیاست کی طویل خود فریبوں اور چال بازیوں سے بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے تو پہلی ملاقات میں عمران خان کی نظروں میں جچ گئے اور انہوں نے وسیم اکرم پلس کا خطاب دے کر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ عثمان خان بزدار کیا وزیراعلیٰ بنے کہ تونسہ اور بارتھی کے ساتھ پورے بزدار تمن کی قسمت جاگ اٹھی جبکہ اس کے ساتھ سردار عثمان بزدار کے ایک قریبی ساتھی جو تحصیل نظامت ٹرائبل ایریا کے زمانہ سے ان کے ساتھ تھے اس کی نسلیں بھی عثمان بزدار کا قرض نہیں اترا سکتیں کہ ڈیرہ غازیخان، تونسہ، بارتھی بلکہ پورے ٹرائبل ایریا میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے ان میں سے ساٹھ فیصد کام ان کی وساطت سے ملے عثمان خان کے اقتدار کے دنوں کو ویسے تو تمام بزدار قوم نے خوب انجوائے کیا جس شخص کے نام کے ساتھ بزدار کا لاحقہ لگتا تو اس کی قسمت جاگ اٹھتی۔ وقت چونکہ بڑا بے رحم ہے اور اس نے ہر حال میں اپنا سفر کرنا ہوتا ہے۔ وقت کی رفتار کا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کرسکا۔ آج ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے ایک اور وزیراعلیٰ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے۔ سردار عثمان بزدار تاریخ میں زندہ رہیں گے انہوں نے جنوبی پنجاب کے تمام بڑے سیاسی لوگوں میں سب سے زیادہ عوام کی خدمت کی ہے۔ لیکن اس دوران اپنی سادگی اور ملنساری پہلے کی طرح قائم رکھی جن کے ساتھ ماضی میں اچھا تعلق تھا ان کے ساتھ اپنے تعلق کو خوب نبھایا۔ ڈیرہ غازی خان میں جتنے بھی پولیٹیکل اسسٹنٹ ٹرائبل رہے اور ان کے سردار عثمان خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے تو انہوں نے اقتدار میں آتے ہی ان کو مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر تعینات کئے رکھا ۔ ان میں انتہائی ایماندار افسران بھی شامل تھے ۔ عمران خان کے ظاہری نظریہ کرپشن سے پاک افسران کو فیلڈ میں لایا گیا تھا۔ سردار عثمان بزدار کے دور میں ویسے تو تمام بیوروکریسی جو مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اوز، کمشنرز وغیرہ تعینات ہوتے رہے بڑے مزے میں رہے کیونکہ انہوں نے جہاں عثمان خان کی عاجزی اور سادگی سے جتنا فائدہ اٹھانا تھا وہ اٹھایا اور دوسرا کھلے عام اپنی من مانیاں کرتے رہے جبکہ ان کے دور اقتدار میں ڈیرہ غازیخان سے درجنوں ڈپٹی کمشنرز کو ہر پانچ چھ ماہ بعد تبدیل کردیا جاتا رہا ہے۔ پولیس، ریونیو، ایکسائز ، بلڈنگ، ہائی وے جیسے بڑے محکمے مکمل طور پر بے لگام ہوچکے ہیں۔ تھانوں کے ایس ، ایچ ، اوز اور ڈی ، پی ، او کے ساتھ چائے نوش کرتے ہیں یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈی پی او کیسی نوعیت کا ہوگا موجودہ ڈی پی او صاحب بھی اس تمام صورتحال سے بخوبی واقف ہیں اور وہ بھی اسی طرح سے کررہے ہیں ۔ سردار عثمان بزدار کے دائیں بائیں وزیراعلیٰ ہاوس میں بھی مفاد پرست بیوروکریٹ اکٹھے تھے جنہوں نے انہیں جان بوجھ کر اپنے عوام سے دور کیے رکھا جبکہ وزیراعلیٰ کا پی ایس او بڑا طاقتور ہوتا ہے جو تمام ترقیاتی کاموں اور فنڈز کے اجراء کرانے میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے۔ سردار عثمان بزدار کے پرسنل سٹاف آفیسران میں طاہر خورشید جیسے گھاک بیورو کریٹ سے لے کر ڈاکٹر راحیل صدیقی، عامر جان جیسے لوگ رہ چکے ہیں جبکہ ڈیرہ غازیخان کے ترقیاتی کاموں کیلئے انہوں نے سمیع اللہ فاروق کو نگران بنایا ہوا تھا سردار عثمان بزدار جب بھی ڈیرہ غازی خان دورہ پر آیا کرتے تو ڈیرہ غازی خان والوں کی تمام درخواستیں اور مسائل سمیع اللہ فاروق کو دے دیا کرتے تھے جو بعد میں سائلین کا فون تک نہیں اٹھایا کرتے تھے۔ اسی طرح کے بیوروکریٹ ہر دور میں مختلف وزیراعلیٰ کے ساتھ رہ کر انہیں سیاسی طور پر تباہ کر چکے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی قسمت میں ہر دور کے بڑے سیاسی لوگوں کے ساتھ اس قسم کے لوگ رہ چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے سابق دور حکومت میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جن کو ڈیرہ غازیخان انتظامیہ ایک وزیر کے برابر پروٹوکول دیا کرتی تھی بعد میں جب موصوف پر مختلف لوگوں کی زمینوں پر قبضوں کی کہانیاں میڈیا میں آنے لگیں تو انظامیہ نے ان کا یہ ڈھونگ ختم کردیا اب وہ ہستی اور ان کے کچھ چیلے دوبارہ مسلم یگ (ن) کی حکومت آنے پر سر اٹھا رہے ہیں اور ڈیرہ غازیخان میں پھر سے ماضی کی کہانیاں شائع ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اب اگر اسی دفعہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں اگر کچھ عرصہ کیلئے حکومت بنانے کا موقع مل گیا تو عوام کا ایک بار پھران بہروپیوں ، بازی گروںکا سامنا ہوگا۔ مہنگائی سمیت تمام لاقانونیت خصوصاً کرپشن کا ایک بار پھر دور دورہ ہوگا یہ لوگ دوبارہ پھر وہی کام شروع کردیں گے کیونکہ ڈیرہ غازیخان سے اب کچھ میاں شہباز شریف اور کچھ چوہدری پرویز الٰہی کے نام لیوا بن کر اپنی لوٹ مار کا آغاز کرنے والے ہیں۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سے جو بھی پنجاب کا وزیراعلیٰ بنے وہ ان نقالوں سے ہوشیار رہے جو ان کو بدنام کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اور پھر وہی کرپشن کا بازار گرم نہ ہو جائے ۔ نئے وزیر اعظم اور نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اب عوام کے لیے جینا اور مرنا ہو گا اور سب سے پہلے بے انتہا مہنگائی میں پسے ہو ئے سفید پوش طبقہ کو مہنگائی سے نجات دلانا ہو گی ۔ ٭٭٭٭٭