ہمارے نزدیک ادبی تنقید کا اہم اور بنیادی مقصد و منصب، ادب کی تفہیم، فن پارے کے مقام و مرتبے کا تعین اور ان دونوں سے بھی بڑھ کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنا ہے نیز لوگوں کو اچھے ادب کے مطالعے کی جانب راغب کرنا بھی اس کا متوقع و مستحسن فریضہ ہے۔ تنقید اگر یہ فریضہ ڈھنگ سے انجام نہیں دیتی تو وہ دانشوری ہو سکتی ہے، دوسری قوموں کی بھونڈی نقالی ہو سکتی ہے، اُلٹا سیدھا فیشن ہو سکتا ہے، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہو سکتی ہے، اچھا خاصا تلا ہوا لُچ ہو سکتا ہے، تنقید نہیں ہو سکتی۔ مجھے ذاتی طور پہ جدید تنقید سے یہی مسئلہ ہے، بلکہ اب تو واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ ہماری یہ فیشن پِٹی تنقید بی بی کسی انجان نگر کے ہنس کی چال چلتے چلتے اپنا رستہ بھول چکی ہے اور اپنی ذاتی شناخت رکھنے والی ’مرغوب بیگم‘ کا کردار نبھانے کی بجائے کسی ’گواچی گاں‘ کی بڑی بہن ’مرعوب بی بی‘ بنی بیٹھی ہے۔ کچھ عرصے سے مختلف جامعات کے طلبہ و طالبات کے چہروں پہ اڑتی ہوائیاں اور ان کا بے برکتا تحقیقی کام دیکھ کے ان پہ غصے کے ساتھ ساتھ ترس بھی آتا ہے کہ نئی تنقید کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے، جدید اصطلاحات کی پہیلیاں بوجھتے بوجھتے، اُن کا اپنا دھیان گیان کہیں گم ہو گیا ہے۔ درآمد شدہ تنقیدی نظریات و مباحث کی لا یعنیت نے انھیں کرارے تخلیقی ذائقوں سے دور کر دیا ہے۔ ساختیات، جدیدیت، نو آبادیات، سیریلزم جیسی اصطلاحات نے تنقید کو چیستاں بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف قنچی مارکہ تحقیق اور مکھی پہ مکھی مارکہ تنقید کا بول بالا ہے۔ نوخیز کلیوں کے ہاتھ میں ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کی انتہائی خطرناک ڈگریاں ہیں لیکن اگر ان سے دورانِ زبانی امتحان ان کے موضوع کی سخت قسم کی حد بندی سے ذرا باہر کوئی معمولی سا سوال بھی پوچھ بیٹھیں یا کسی معروف مصنف کی معروف ترین کتاب کی بابت بھی دریافت کر لیں تو بچے بچی کی حیرانی سے پہلے اساتذہ کی جانب سے چائے ٹھنڈی ہونے کی نوید سنائی دینے لگتی ہے۔ اس عجلت میں وہ نوجوان سکالر کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا فارم ممتحن کی طرف بڑھانا نہیں بھولتے، جس کے اوپر پچاسی سے نوے فیصد تک نمبر لگانا ممتحن کی ’شرعی مجبوری‘ قرار پا چکا ہوتا ہے۔ جدید تنقید کی اس بے معنویت اور جامعات میں پینسٹھ کلو میٹر کی رفتار سے ہونے والی اس عجلت پسند تحقیق کا سب سے زیادہ نقصان اقبال کو ہوا ہے۔ اس جدید تنقید کی بے شمار ادب دشمنیوں کے ساتھ ساتھ ایک دُر فنطنی’مصنف کی موت‘ (Death of writer) بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی فن پارے کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ کا دھیان اس فن پارے کے خالق کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ لا حول ولا قوۃ… جانے یہ کس کم بخت کا نظریہ یا سازش ہے کہ مصنف یا تخلیق کار کو اس کی تخلیق سے الگ کر دو ۔ وہ مغرب کہ جہاں کسی کے باپ کی بابت دریافت کرنا بھی اخلاقیات سے باہر کی چیز سمجھا جاتا ہے، وہاں تو اس تنقیدی نکتے کا کوئی جواز ہو سکتا ہے لیکن ہمیںکوئی بتائے کہ میر و غالب کی شاعری ہو یا حالی، ڈپٹی، سرسید کا ادب، حالی و سرسید کا پُر آشوب سیاسی دور ہو یا منٹو، انتظار اور ناصر کے ہجرت کے تجربات ، ان سب کے فن پاروں کو ان کے عہد یا مصنف کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز جانے بغیر کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل اقبال ہیں، جن کا ایک ایک مصرع، ان کی ذات، قلبی واردت اور اپنے عہد کے حالات کے ساتھ بندھا ہوا بلکہ گندھا ہوا ہے۔ ایک ایک نظم ان کی سیاسی، سماجی،مِلّی، اخلاقی، ادبی، تاریخی ترجیحات کے ساتھ پل کر جوان ہوئی ہے۔ ایک اک شعر پہ ان کے اسلوب، مزاج اور لفظیات کے دستخط ہیں۔ اپنے اُردو، فارسی کلام میں تو وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کے اس کی قدم قدم رہنمائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سرِ دست ہم ’ بانگِ درا‘ کے مندرجات ہی کی بات کر لیں کہ جس کی اشاعت کو اَب سو سال ہونے کو آئے ہیں اور جس کی نظموں غزلوں کا ایک ایک لفظ اقبال کے ذہنی، قلبی جذبات ارتقائی نظریات اور ادلتی بدلتی ترجیحات کے تعین کی خبر دیتا ہے۔ اقبال کے بلیغ و بصیر کلام کو تو ایک طرف رکھیں، ہم سمجھتے ہیں کہ آج تک اس عام فہم اور ابتدائی کلام کی کامل تفہیم کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اوپر سے ہم انھیں نئی تنقیدی اصطلاحات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ صرف چند نصابی اور سرکاری قسم کے موضوعات ہیں، امتحانی ضروریات کی غرض سے منتخب کیا گیا کچھ کلام ہے کہ جس کی مسلسل جگالی سے ہم اپنی طرف سے اقبال شناسی کا حق ادا کیے بیٹھے ہیں۔ آئیے آج ہم روایتی قسم کی اقبال شناسی سے صرفِ نظر کر کے اور مغربی تنقید کی موشگافیوں پہ تین حرف بھیجتے ہوئے شاعرِ مشرق کے ابتدائی اُردو مجموعے ’بانگِ درا‘ کے باطن سے جیتے جاگتے اقبال کی ذاتی زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کہ جس کی بابت شیخ عبدالقادر کا کہنا ہے: ’’یہ دعویٰ سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں آج تک کوئی ایسی کتاب اشعار کی موجود نہیں ہے، جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں، اور کیوں نہ ہو، ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔‘‘ (دیباچہ بانگِ درا) اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ اقبال فطرت کے نظاروں سے آخری حد تک لطف اندوز ہونے کے قائل تھے۔ انھیں شہروں سے زیادہ بن اچھے لگتے تھے، وہ دریائے نیکر سے لے کے کنارِ راوی تک اسی حسن سے تسکین کا سامان دھونڈتے رہے۔ ’بانگِ درا‘ میں، ہمالہ، گلِ رنگیں، عہدِ طفلی، ابرِ کوہسار، اخترِ صبح، حسن و عشق، ایک شام، رات اور شاعر، تنہائی، جگنو، صبح کا ستارہ، محبت، فراق، ایک آرزو، شبنم اور ستارے اور کنار ِراوی جیسی بے شمار نظموں اور متعدد غزلوں میں ہمیں فطرت پرست، ماضی میں مست اور رومانیت میں پور پور بھیگا اقبال دکھائی دیتا ہے: ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تُو دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو فارسی، انگریزی اور اُردو کے کلاسیکی ادب سے اقبال کے گہرے شغف سے تو سب لوگ آگا ہ ہیں۔ ان کا نہ صرف مطالعہ غضب کا تھا بلکہ وہ اپنے اشعار میں پسندیدہ و محترم شخصیات کو باقاعدہ خراج بھی پیش کرتے ہیں، جو ان کی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے۔ ’بانگِ درا‘ میں مرزا غالب، سید کی لوحِ تُربت، داغ، شبلی و حالی، عرفی، شیکسپیئر وغیرہ جیسی نظموں میں ہمارا ایک حقیقی سخن شناس اور رفتگاں کے دلی معترف اقبال سے سامنا ہوتا ہے : اُٹھ گئے ساقی جو تھے، مے خانہ خالی رہ گیا یادگارِ بزمِ دہلی ایک حالیؔ رہ گیا (جاری)