شیخ صاحب سے تین دہائیوں تک دوستی رہی، دوستی تو اب بھی قائم ہے لیکن ملاقاتیں نہیں رہیں، ہم دونوں ہمسائے تھے، دونوں کے دفاتر ساتھ ساتھ تھے،چھٹی کا کوئی دن ہی ہوتا جب ہم نہ ملتے،مجھ سے آپ صرف شیخ صاحب کی عمر نہ پوچھئے گا، باقی سب میں سچ سچ بتا سکتا ہوں، شیخ صاحب کی رہائش ان کے دفتر کے عقب میں تھی جس کے باعث انہیں ہی نہیں ان کے دوستوں کو بھی بڑے فائدے حاصل تھے، لنچ ان کے گھر سے آتا تھا، صرف شیخ صاحب کیلئے نہیں، ان کے تمام احباب کیلئے بھی، وہ صبح کام کاج کیلئے آفس آیا کرتے اور شام کو دوستوں کے ساتھ مجلس سجاتے ، دونوں بار ہی ان کا انگریزوں جیسا لباس مختلف ہوتا، لباس ہی نہیں، وہ خود بھی سر تا پا انگریزوں جیسے ہی ہیں،ہاں اگر وہ بولیں نہ تو، کیونکہ جب بولتے ہیں تو اندرون شہر کا لاہوریہ باہر نکل آتا ہے ،،، صبح کی نشست کے بعد وہ شام چار بجے گھر واپس چلے جاتے، ایک گھنٹہ آرام فرمانے کے بعد جناح باغ سیر کیلئے پہنچ جاتے، واپسی رات سات بجے ہوتی،اس کے بعد وہ پھر باتھ روم کا رخ فرماتے اور نئے کپڑے بدل کر پھر آفس میں وارد ہوتے ، رات کی نشست کے لئے وہ جسم پر تیز خوشبو لگاتے، میں سوچتا ، شیخ صاحب جوانی کے دنوں میں زندہ ہیں، جوانی کے وہ دن جب تو شام کو مکمل تیار شیار ہو کر کہیں اور جایا کرتے ہوں گے۔۔۔۔ شیخ صاحب کی محفل میں دنیا جہاں کے موضوعات پر گفتگو ہوتی،مگر دوسرے کچھ بھی بحث کر رہے ہوں، شیخ صاحب دوسروں کی بات کاٹ کر ایک مخصوص فقرہ ضرور ادا کر دیا کرتے تھے،مثلاًبات چل رہی ہے امریکی صدر بل کلنٹن کی مونیکا لیونسکی سے تعلقات کی، تو شیخ صاحب پوری قوت کے ساتھ مداخلت فرما دیتے،، ان کی تان مینا چوہدری پر ہی ٹوٹتی ، میں نے کہا شیخ صاحب،حکومت، طالبان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت کیوں نہ ہوئے؟ جواب ملا، چھڈوجی، مونیکا لیونسکی نوں ، او وی کوئی کڑی اے، میرے کولوں سنو گل مینا چوہدری دی ،،،، مینا چوہدری شیخ صاحب کے دور کی ایک معروف رقاصہ تھی، شیخ صاحب کسی کے منہ سے مدھوبالا کی تعریف سننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے، شیخ صاحب کا موڈ دیکھ کر ان کے دوست خاموش ہوجاتے ، انہیں مینا چوہدری کی کہانیاں سننا پڑتیں، یہ لازم اس لئے بھی ہو جاتا کہ شیخ صاحب کی میزبانی میں چلنے والی اس محفل سے کس کافر کا جی چاہتا ہوگاکہ وہ پیاسا اٹھ کر چلا جائے،،،،، شیخ صاحب کی کہانیاں اس قسم کی ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ یہ جو مینا چوہدری تھی نا، ،کیا بات تھی اس کی، مینا چوہدری کے گھر تاش اور لڈو کھیلا کرتے تھے، سردیوں کی ایک رات تھی، ہم لڈو کھیل رہے تھے۔ مینا کی ماں اسے کئی بار بلانے آئی، مگر وہ نہ گئی ،، مینا دولت کی لالچی نہ تھی، وہ رات گئے خود گاڑی ڈرائیو کرکے مجھے گھر ڈراپ بھی کرتی تھی، شیخ صاحب وہ آپ کی محبوبہ تھی کیا؟ شیخ صاحب فوراًدو ٹوک تردید کر دیتے،،، نہیں جی ، میرے ایک دوست کی دوست تھی، میں تو بس اس کے ساتھ ہوتا تھا، شیخ صاحب مینا چوہدری دور کے کئی سال بعد بام عروج پر جانے والی رقاصہ ممتاز کے سخت خلاف تھے اور اسے پتلی گلی کی میلی سی لڑکی کہہ کر مخاطب کیا کرتے ، وہ بتاتے کہ جب ہم ممتاز کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو وہاں سے بہت بو آیا کرتی ،،ممتاز کا گھر مینا چوہدری کے گھر کے ساتھ ہی تھا، ممتاز بہت کالی کلوٹی تھی، انہی کہانیوں کے دوران جب کوئی شیخ صاحب سے خود ان کی عمر پوچھ لیتا تو وہ جواب بھی مشروب کی طرح پی جاتے ،کوئی ساٹھ پینسٹھ کا قریبی دوست عمر کے حوالے سے سوال کر دیتا تو فرماتے ،، آپ تھوڑے سے چھوٹے ہیں مجھ سے، شیخ صاحب جب 1960 ء کی باتیں بتاتے اور اپنی وہ تصویریں دکھاتے جب وہ لندن میں رہا کرتے تھے تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں اور جاننے والے جان جاتے ہیں کہ وہ عمر کی کس دہلیز پر کھڑے ہیں،عمر ،ان کی جتنی بھی ہو، ماشا اللہ شیخ صاحب جوانوں کے ساتھ بیٹھے جوانوں سے زیادہ جوان لگتے ہیں، شیخ صاحب جب بھی ممتاز کا ذکر کرتے مجھے بہت ساری باتیں یاد آ جاتیں، لیکن میں نے کبھی کسی واقعہ کا شیخ صاحب کی مجلس میں تذکرہ نہ کیا۔ ٭٭٭٭٭ بات ہے سن96 -1995 ء کی۔۔ آفس میں فون کی گھنٹی بجی،رسیور اٹھایا تو دوسری جانب ایک نسوانی آواز تھی۔اس عورت نے سوال ہی ایسا کیا کہ میرے پسینے چھوٹ گئے، جواب دینا تو کجا اس وقت خود کو نارمل رکھنا مشکل ہو گیا،، میں نے شکر کیا کہ اس وقت میرے روم میں کوئی اور نہ تھا۔ فون پر بے باکی دکھانے والی یہ تھی ایکٹرس ممتاز جو اس وقت ایک اسٹوڈیو اونر کے نوجوان بیٹے کی بیوی اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں بھی تھی ،پھر ممتاز کے تواتر سے فون آنے لگے،ایک دن میں نے اس سے کہا ،، تم اب ایک شریف آدمی کی بیوی ہو، اس کے اعتماد کو کیوں مجروح کر رہی ہو؟ اس نے جھٹ جواب دیا،، وہ شریف آدمی میرے ساتھ ہی بیٹھا ہے، میں اس سے طلاق لے چکی ہوں۔ممتاز کی یہ بات سن کر کہ اس کا شوہر اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ہے،،میرے ایک بار پھر پسینے چھوٹے،، سوچا جھوٹ بول رہی ہوگی؟،،، کیا تم ان سے میری بات کرا سکتی ہو؟،،اس نے رسیور اس کے ہاتھ میں دیدیا،،، میں اس شخص سے اور وہ مجھ سے واقف تھا،اس نے ہیلو کہا تو میں اس کی آواز پہچان کر شرم سے پانی پانی ہو گیا ،۔۔۔ ممتاز آہستہ آہستہ ملاقات کی فرمائشیں کرنے لگی۔اس سے جان چھڑانا دشوار ہو رہا تھا ،ایک دن اپنے دوست اعجاز کو اعتماد میں لیا تو اس نے مشکل حل کر دی۔ تم اسے میرے آفس بلوا لو، پھر ممتاز سے طے ہوا کہ ہم اعجاز کے آفس میں لنچ کریں گے۔میں نے اسے بمشکل اعجاز کے آفس آنے پر آمادہ کیا تھا۔ پھر وہ دن آ گیا جب پتلی گلی کی بھدی لڑکی سے پہلی ملاقات ہوئی۔اس بھدی لڑکی سے ملاقات جس کے دیوانوں کی تعداد اس وقت تک ہزاروں میں نہیں لاکھوں تک جا پہنچی تھی۔میں بارہ بجے اعجاز کے آفس بیٹھا تھا،،لنچ کا اہتمام اسی کمرے میں تھا، ساڑھے بارہ کے قریب دروازہ کھلااور ممتاز اندر داخل ہوئی، اس کے ہاتھوں میں گلدستہ اور پرفیومز کا گفٹ تھا،، اس سے پہلے کہ وہ صوفے پر بیٹھتی،،، اعجاز زور سے چلایا، اوئے، یہ تو وہی ممتاز ہے،جس کی فلمیں میں نے بچپن میں دیکھی تھیں،، ممتاز نے اپنا چہرہ اعجاز کی طرف موڑا،اس کا چہرہ انگارہ بن چکا تھا، وہ شدید غصے میں تھی ، اس کے چہرے پر نفرت کے آثار بھی تھے، ممتاز نے تحائف اور پھول کمرے کی ایک نکڑ میں پھینکے اور ایڑھی زمین مارتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی ۔ ممتاز سے حادثاتی تعلق کی یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی، اس کے بعد کیا کیا ہوا ؟ وہ سب پھر کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس کے بعد ممتاز کی جو سنسنی خیز لائف شروع ہوئی اس میں نائن الیون کا واقعہ بھی شامل ہے اور اس واقعہ میں گرفتار ہونے والا وہ ایک شخص ابھی تک امریکیوں کی قید میں ہے جس نے ممتاز سے شادی کر لی تھی۔