دلی کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ وہ بھارت کی راجدھانی یعنی دارالحکومت ہے۔ دلی کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں اور اردو ادب کی جو یادیں وابستہ ہیں۔وہ کسی طور پر بھلائی نہیں جا سکتیں۔ دلی کے لیے سکھ صحافی خشونت سنگھ نے اپنے مشہور ناول ’’دلی‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’دلی شہر اس عورت جیسا ہے جس کے ساتھ رہنا بھی مشکل ہے اور جس کو چھوڑ جانا بھی آسان نہیں‘‘ اگر بات مغل سلطنت سے شروع ہوگی تو بات بہت لمبی ہو جائے گی، ہم دلی کو اگر میر تقی میر کے دل اور مرزا غالب کی نظر سے دیکھیں تو دلی کے ساتھ ہمارے بہت سارے رشتے ہیں۔ ان سارے رشتوں پر سیاست قابض نہیں ہوسکتی۔ ان مجموعی رشتوں کو سیاست کمزور نہیں کر سکتی۔وہ رشتے تاریخ سے سینے میں دل کی طرح دھڑک رہے ہیں۔دلی کو ہم کس طرح فراموش کر سکتے ہیں۔دلی تو ہماری کہاوتوں،ہمارے گیتوں اور غزلوں میں بسی ہوئی ہے۔ مگر ہم اس دلی کی بات نہیں کر رہے جو سیاسی دلی ہے۔جہاں مسلمان محلوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ جہاں مساجد کو نظر آتش کیا جاتا ہے۔ جہاں نریندر مودی کی سوچ آبادی کے ایک مخصوص حصے میں زہر آلود پودے کی طرح سرکاری گملے میں پھل پھول رہی ہے مگر اس بات سے بی جے پی بھی انکار نہیں کر سکتی کہ دلی کے دل میں آج تک جو محبت اور اپنائیت ہے اس کو شیوسینا اور آر ایس ایس شکست نہیں دے پائی۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دلی میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے بجائے بی جے پی کی حکومت ہوتی۔ دلی میں اگر مسلمانوں کے ساتھ نفرت ہوتی تو آج ’’روزنامہ92‘‘ میں یہ کالم کس طرح شائع ہوتا ہے۔ ہم شہروں اور لوگوں کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم تو اس سوچ اور عمل کے مخالف ہیں جس سوچ اور عمل سے شر پیدا ہوتا ہے۔ وہ شر جس سے شرر پیدا ہوتا ہے۔ وہ شرر جو شعلے میں بدل جاتا ہے۔ وہ شعلہ جو کسی کے گھر یا دوکان یا عبادت گاہ کو جلاتا ہے: جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جوجو اب راکھ جستجو کیا ہے اس وقت تو دلی میں شمشان گھاٹ میں رکھی ہوئی، لکڑیاں جل رہی ہیں اور صرف وہ نہیں بلکہ کورونا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے انسان اور ان سے وابستہ انسانوں کے جذبات اس آگ میں جل رہے ہیں، جس آگ کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ’’یہ آگ کب بجھے گی‘‘ یہ آگ جو دلی کے دل میں بھڑک رہی ہے۔ کورونا کا وائرس ویزے کا محتاج نہیں ہے۔ ہم کو اب اس بات کا شعور تو آنا چاہیے۔ کیوں کہ ابتدا میں تو ہم بھی شک کر رہے تھے کہ جو وائرس چین سے نکلا اور پھر یورپ سے ہوتا ہوا امریکہ میں جا پہنچا، اس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ ممکن ہے کہ یہ کوئی عالمی سازش ہو۔ مگر اب جب ہمارے آس پاس کورونا کی وجہ سے لوگ بچھڑ رہے ہیں اور اس وقت جس طرح بھارت کے اہم ترین شہر دلی میں اس وبا نے قیامت برپا کی ہوئی ہے؛ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آگ آسانی سے بجھنے والی نہیں اور اس سلسلے میں اب تو یہ خوف بھی غیرمنطقی اور غیر فطری محسوس نہیں ہوتا کہ خدا نہ کرے کہ اس وبا کی چنگاریاں پاکستان میں اس شدت کے ساتھ گریں جس کا ہمیں خوف ہے۔ پنجاب میں تو کورونا نے زندگی کو بہت متاثر کیا ہے اور اب سندھ میں اس وبا کے مریض بڑھتے جا رہے ہیں مگر اب تک ہم کورونا کی اس تیسری لہر سے محفوظ ہیں، جس نے دلی کو دھوئیں سے بھر دیا ہے۔ جب خلائی طاقت بننے کے خواب دیکھنے والا بھارت آکسیجن سلینڈر کے لیے ترسے ،تب ہمیں اس بیماری کی دشمن طاقت پوری شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے اور یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ بھارت کے دفاعی معاہدات امریکہ کے ساتھ ہیں اور چین کے ساتھ تو اس کی سرحدی جھڑپیں عالمی میڈیا کا اہم موضوع بنی ہوئی تھیں مگر اس وقت دلی میں کم پڑجانے والے آکسیجن کا اہتمام چین کر رہا ہے۔ ہانگ کانگ کے ایئرپورٹس سے اڑنے والے جہاں مسافروں والے نہیں ہیں ،وہ جہاز آکسیجن ٹینک بھر کر آتے ہیں۔کاش! کورونا کی تیسری لہر گزر جانے کے بعد بھارت کو یہ احساس ہو کہ گھٹن کیا ہوتی ہے؟ وہ گھٹن جو برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے پیدا کر رکھی ہے۔ کاش! کورونا کی اس آفت گزرجانے کے بعد بھارت میں یہ شعور پیدا ہو کہ انسان کی اصل ضرورت صاف ستھری ہوا میں آسانی کے ساتھ سانس لینا ہے۔ انسان کو کچھ چاہئیے دو وقت کا کھانا چاہئیے اور سر پر مکان کی چھت چاہئیے۔ باقی آبادیوں کو زیر کرنے کے تصوارت انسان کو وحشی ماضی سے میسر ہوئے ہیں۔ اگر بھارت کو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اصل لڑائی غربت اور انسان کو کمزور کرنے والے حالات سے ہے تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک اچھے پڑوسی اور انسان دوست ہونے کے حوالے سے ہم بھارت میں کورونا کی بھڑکتی ہوئی، آگ کے بھی مخالف ہیں اور ہمیں اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ کہیں یہ آگ ہمارے ملک میں نہ داخل ہوجائے۔ کیوں کہ پاکستان کورونا فری ملک تو نہیں ہے مگر اس میں کورونا اس شدت کے ساتھ داخل نہیں ہوا جس شدت کے ساتھ وہ اس وقت بھارت میں موجود ہے۔ اس حوالے سے ہمیں دو باتوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرنا۔ ایک تو ہمیں اللہ سے دعا مانگنی چاہئیے کہ وہ ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھے اور دوسری اہم بات یہ کہ ہمیں مکمل طور پر احتیاط کرنی چاہئیے۔ ہم جانتے ہیں کہ عید کا دن ہم مسلمانوں کے لیے غیر معمولی جذبات کا دن ہیں مگر عیدیں تو ہمیشہ آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ میں لاہور کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر جس طرح کے حالات میں نے عید کی شاپنگ کے حوالے سے کراچی میں دیکھے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ جس طرح لوگ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھیڑ میں گھس کر عید کی شاپنگ کر رہے ہیں، اس سے خوف آنا فطری بات ہے۔ کراچی میں کورونا کو عملی طور پر مذاق بنانے والے عوام اور خاص طور پر تاجر پیشہ لوگوں نے جس طرح مکمل طور پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے کہ اس معاشرے کا کیا ہوگا؟ ایک طرف حکومت عوام کو کورونا سے بچنے کے لیے ایس او پیز پر عمل کرنے کی تاکید کر رہی ہے اور دوسری طرف عوام ہے کہ اس نے عدم تعاون کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اگرخدانخواستہ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر شدت کے ساتھ داخل ہوجاتی ہے، تو پھر اس سے کوئی محفوظ نہیں ہوگا۔عوام کے مقدر میں تو ویسے بھی غم بہت ہیں لیکن اس وبا کا شکار تو تاجر بھی ہونگے جو عید کا سیزن کمانے کے لیے پورے ملک کو کورونا کی آگ میں دھکیلنے کے سلسلے میں پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اس وبا کا شکار وہ سیاستدان بھی ہونگے، جنہوں نے اقتداری مفاد کے لیے عوام کو احتجاج کی راہ دکھائی۔ قوموں کی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب قومی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور اس بات کا سبق قوموں کو وہ سیاستدان ہی دیتے ہیں جو معاشرے کی رہنمائی کے داعی ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیں، اس میں ہمیں احتیاط کے ساتھ عید منانے کی مثال قائم کرنی چاہئے۔جب کورونا کی وبا ختم ہوجائے گی، تب ہم پھر سے گلے ملیں گے اور محبت کا اظہار کھل کر کریں گے۔ اس وقت کورونا سے بچنے کے لیے ہمیں عوام کو ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ،جن ہدایات سے عدم تعاون ہم برداشت نہیں کر سکتے۔کیا ہم اپنے ملک؛ معاشرے اور خاندان کے لیے اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟