سپریم کورٹ نے کراچی میں سماجی کارکن پروین رحمن قتل کیس میںجے آئی ٹی کے سربراہ کو 2 ماہ میں حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کیا لینڈ مافیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے باہر ہے۔ دنیا بھر میں وہی ملک کامیاب ہیں ،جہاں پر قانون سب کے لئے برابر ہے۔ جن ملکوں میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون نافذ ہے، وہاں پر مسائل ہی مسائل ہیں۔ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے یہاں پر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لیکن بدقسمتی سے بعض کیسز میں امراء کو ریلیف دے دیا جاتا ہے اور پھر تفتیشی بااثر ملزم کے ساتھ مل کر انہیں کلین چٹ دے دیتے ہیں۔ بعض مرتبہ رشوت کے ذریعے بااثر ملزمان کیسز کو طول دے دیتے ہیں جس بنا پر مدعی مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ سماجی کارکن پروین رحمن قتل کا تعلق بھی لینڈ مافیا سے ہی ہے۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کیا قانون بے بس اور لینڈ مافیا دسترس سے باہر ہے۔ 2013ء میں پروین رحمن کو قتل کیا گیا لیکن لینڈ مافیا اس قدر طاقتور تھا کہ وہ ہر موقع پر تفتیشی اداروں کو چکمہ دے جاتا تھا۔ لینڈ مافیا نہ صرف مقتولہ کے لواحقین کو کیس سے دستبردار ہونے کی دھمکیاں دیتا ہے بلکہ کئی تفتیشی افسران پر بھی کیس خراب کرنے کے لئے دائو ڈالا گیا۔ پولیس نے اپنی جان مشکل میں ڈال کر ایک مشکل ٹرائل مکمل کیا ہے۔ امید ہے آئندہ دو ماہ کے اندر اندر یہ کیس منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ پولیس اگر بلاتفریق قانون پر عمل کرے تو آدھے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بااثر سے بااثر ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔