تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام نے تبدیلی کے لیے اپنا فیصلہ سنایا، روایتی سیاست کی تو ہمارا حشر ایم ایم اے اوراے این پی سے بھی برا ہوگا۔ ہر ہفتے ایک گھنٹہ سوالات کے جواب دوں گا۔ 25 جولائی 2018ء کو قوم نے حبس اور گرمی کی پروا کئے بغیر اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے چیئرمین تحریک انصاف کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کی تھی۔ آمروں، ڈکٹیٹروں، درباریوں، پیشہ ور سیاسی جماعتوں اور ان کے حواریوں سے ستائی قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب مزید ظلم و ستم، کرپشن، مہنگائی اور لوٹ مار برداشت نہیں کرسکتی۔اس لیے اس نے ضمیرکی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے ، مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی کی مک مکا کی سیاست نے ملکی بنیادیں کھوکھلی کرچھوڑی ہیں ۔ اڑھائی عشروں سے ان دونوں جماعتوں نے اپنی باریاں مقرر کر رکھی تھیں جو ملکی معیشت کی تباہی کی بنیادی وجہ ہے۔ ملک بھر سے الیکٹ ایبلز ان کی جماعتوں میں موجود تھے جن کے بل بوتے پر یہ لوگ اقتدار حاصل کر کے قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کرکے قوم کو مہنگائی کے بوجھ تلے دباتے جا رہے تھے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضہ لیکر قوم کو گروی رکھ چھوڑا تھا ۔ جبکہ مہنگائی کے باعث عوام کا جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی محال ہو چکا ۔عمران خان کو مینڈیٹ دیکر قوم یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اب ملک و قوم کی تقدیر لازمی بدلے گی، جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی قوم سے وعدے کر رکھے ہیں ان وعدوں کو عملی جامہ پہنائے بغیر ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عمران خان خود اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر انہوں نے ڈیلیورنہ کیا اور روایتی طرز حکومت اپنایا تو وہ قوم کے غضب کا نشانہ ہوں گے۔ اقتدا سنبھالنے سے پہلے ہی عمران خان کو اپنی ترجیحات کا تعین کرلیناچاہیے کہ انتخابی منشور کے مطابق انہوں نے قوم سے جو وعدے کر رکھے ہیں انہیں وہ کیسے ایفا کریں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان عوام کی خدمت کے لیے اقتدار میں آئے ہیں لیکن انہیں عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مفاداتی، شخصی اور خاندانی سیاست کے خلاف ہیںاور اپنی پارٹی کے کسی بھی عہدیدار ، وزیر، ایم این اے اور ایم پی اے کو روایتی سیاست کر نے کی اجازت بھی نہیں دیں گے ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) یہ اعتراض کرتی ہیں کہ جو الیکٹ ایبلز عمران خان کے پاس موجود ہیں ان کے ساتھ تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ اب عمران خان کے لیے یہ چیلنج ہے کہ وہ انہیں افراد کے ساتھ اپنے مشن میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں۔ انہی الیکٹ ایبلز نے ماضی میں لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا تھا۔ ذاتی سیاست کو فروغ دے کر عوام کا استحصال کیا۔ مخالفین کو تھانے اور کچہری میں الجھائے رکھا، ترقیاتی منصوبوں میں ٹھیکیداروں کے ساتھ ساز باز کر کے کمیشن ہڑپ کیا۔ یہ لوگ اب بھی اسی پرانی ڈگر پر چلنے کی کوشش کریں گے لہٰذا عمران خان کو اچھی حکمرانی اور گڈگورننس کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے، 50 لاکھ گھر بنانے، سیاحت کو فروغ دینے اور ملک بھر میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کا جال بچھانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو اس میں ذاتی طور پر دلچسپی لینا ہوگی۔ اگر انہوں نے روایتی سیاستدانوں کی طرح ان معاملات کو نظر انداز کیا تو ان میں سے کوئی ایک منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔دوسرا اگر عمران خان نے تبدیلی اپنی ٹیم پر چھوڑ دی یا بیوروکریسی پر تکیہ کیے بیٹھے تو ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ یہ لوگ پہلے بھی موجود تھے لیکن اپنی ذات کو سنوارنے اور تجوریاں بھرنے میں مگن رہے۔ پانی کے انتظام کو بہتر بنا کر زراعت کو خوشحال بنانا پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ بڑے سیاستدان ہی بڑے زمیندار اورسرمایہ دار ہیں۔ یہ قومی واٹر پالیسی بنانے اور چھوٹے کسانوں کو رعایتی نرخوں پر بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی فراہمی کے راستے میں روڑے اٹکائیں گے، ان کی کوشش ہو گی کہ وہ زرعی شعبے میں اپنی اجارہ داری قائم رکھیںاور چھوٹے کاشتکاروں کا استحصال کرتے رہیں، لائیوسٹاک اور ماہی گیری کی صنعتوں کو اپنے منحوس پنجوں میں جکڑے رکھیں، اس لیے عمران خان روزانہ کی بنیاد پر تمام وزارتوں کو مانیٹرنگ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ ملک بھر میں دو تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں۔ غریب اور نادار افراد کے بچے ٹاٹ والے سکولز میں جاتے ہیں جبکہ امرا، وزرا اور سیاستدانوں کے بچے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب تک امیر اور غریب کا بچہ ایک سکول میں نہیں جائے گا تب تک ترقی اور خوشحالی ایک خواب بنی رہے گی۔ لہٰذا عمران کو سکولوں، جامعات، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور دینی مدارس میں جدید اصلاحات متعارف کروا کر بچوں میں احساس کمتری ختم کرنا ہوگا۔ میاں نوازشریف نے اپنے دور اقتدار میں چار سال وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا، ان کی ملک میں اندرونی مصروفیات کے باعث عالمی برادری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط نہ بنایا جا سکا جس بنا پر مسئلہ کشمیر پر بھی ہماری گرفت کمزور ہوئی۔ پی ٹی آئی کو خارجہ پالیسی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ایک فعال اور متحرک آدمی کی ضرورت ہے جو ملک کو تنہائی سے نکال کر عالمی برادری کے ساتھ کھڑا کرے۔ دفاعی صلاحیت میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مضبوط ٹیم تشکیل دینا ہوگی۔ دہشت گردی کی جنگ میں بطور فرنٹ لائن اتحادی پاکستان نے 10374 ارب روپے کا مالی نقصان برداشت کیا ہے جبکہ ہزاروں افراد نے جانی قربانیاں دیں۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے میگا پراجیکٹ شروع کئے جن میں جی بھر کر کرپشن کی گئی۔ تحریک انصاف کو میگا پراجیکٹ کی بجائے سوشل پراجیکٹ شروع کرنے چاہئیں تاکہ عوام سے جس تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ان کی زندگیوں میں ہوتی نظر آئے۔پہلے 100 دن کا منصوبہ ہی کسی حکومت کی پانچ سال کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی ہوتا ہے، اگر عمران خان نے 100 دنوں میں ڈلیور کیا تو قوم کا اعتماد بڑھے گا اور اسے اپوزیشن کے گٹھ جوڑ سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا لیکن اگر انہوں نے شروع میں ہی روایتی سستی دکھائی تو عوامی مسائل بڑھیں گے، عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور وہ کبھی بھی انہیں معاف نہیں کریں گے۔