وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف جیلوں میں قید بے سہارا اور مالی طور پر کمزور افرادکو معاونت نہ دینا ظلم ہے وہاں دوسری طرف بااثر افراد کے ساتھ جیلوں میں ترجیحی سلوک نا انصافی ہے ۔وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کیونکہ اگر جیلوں میں بھی ترجیحی سلوک کرنا ہے تو پھر بے سہارا قیدیوں کا کیا قصور ہے جن اکثریت کے جرائم بااثر افراد کے جرائم سے کم درجہ کے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیلیں سزا کے لئے ہوتی ہیں، خدمت کے لئے نہیں۔ اگر ایسے بااثر افراد کو سزا کی بجائے ان کی خدمت ہی کرنی ہے تو پھر جیلوں میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، انہیں گھروں میں ہی کیوں نہ رہنے دیا جائے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لاکھوں بے سہارا قیدیوں کو بھی جیلوں کی بجائے گھروں میں کیوں نہ بھیج دیا جائے۔لہٰذا کسی بھی بااثر قیدی کی طرف سے جیل میں مراعات کے تقاضے نہ صرف ناجائز ہیں بلکہ یہ دوسرے عام قیدیوں کے ساتھ کھلی ناانصافی بھی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جیلوں میں قانون کے مطابق تمام سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں لیکن اس سلسلے میں بااثر قیدیوں سے حسن سلوک ، مالی اور سیاسی طور پر کمزور قیدیوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے جس کا روز حشر بھی حساب دینا پڑے گا۔ ہمارا دین قیدیوں سے حسن سلوک کا درس ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس میں کسی درجہ بندی کا قائل نہیں ۔ لہٰذا اس سلسلہ میں تمام قیدیوں سے یکساں سلوک کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں، یہی عدل کا تقاضا ہے۔