باب القاعد سرکاری شعبے میں قائم چوٹی کے تعلیمی ادارے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا صدر دراوزہ ہے۔ یہاں پہنچ کر نوے ڈگری کے فرق سے دو راستے نکلتے ہیں، کسی پر بھی بغیر رکے چلتے جائیں تو واپس یہیں پر پہنچیں گے۔ یہ ایک گول دائرہ ہے۔ جو پچھلی دو دہائیوں میں دو گنا بڑھ چکا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے ترقی کی نئی منزلیں طے کی ہیں جن میں نئے ڈیپارٹمنٹس کا قیام اور چار دیواری اہم ہیں۔ طلبا کی تعداد میں ہوشربا تو نہیں لیکن نوے کی دہائی، جب مجھے اس کے ہاسٹلز میں چھ سال کا عرصہ گزارنے کا اعزاز حاصل ہوا، کی نسبت دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یونیورسٹی کے پاس مشرف دور میں حاصل ہونے والے فنڈز کا مصرف یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ طلبا کو پڑھانے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ بی ایس پروگرام شروع کرانے سے لء کر ڈپلوما کلاسز کے اجرا تک سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو یونیورسٹی کے مالی معاملات بھی دگر گوں ہوگئے۔ فیسوں میں ہوشربا اضافہ بھی دہائی بھر کے ترقیاتی عمل کے لوازمات اور تقاضے پورا کرنے میں ناکام ہو گیا۔ سب سے بڑا مسئلہ لیبارٹریوں اور لائبریریوں کی اپ گریڈیشن کا تھا۔ اساتذہ بھی طلبا کی تعداد میں اضافے کے باعث اضافی بوجھ سے نالاں تھے۔ صوبائی کوٹے کی بنیاد پر داخلہ پالیسی کی وجہ سے ثقافتی تنوع اور اس سے پیدا ہونے والے امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت یونیورسٹی کے پاس پہلے بھی نہیں تھی ، طلبا کی تعداد میں مزید اضافے کی وجہ سے معاملات اور بھی الجھ گئے۔ یونیورسٹی اور ڈیپارٹمنٹ سطح پر موجود سینئر طلبا پر مشتمل انجمنیں بھی ان کی پریشانی کے حل کے لیے متحرک ہوئیں ، کچھ فنڈز بھی اس طریقے سے میسر آئے، لیکن پائیدار حل کہاں سے آئے کہ چادر سے پاوں باہر نکل گیا تھا۔ اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شارٹ کٹ مارے گئے لیکن معاملہ بگڑگیا اور قانونی جنگ کی شکل اختیار کرگیا۔ یونیورسٹی کے گر د چار دیواری کھڑا کرنے کا مسئلہ آیا تو قابضین نے انتظامیہ کو دن میں تارے دکھا دیے اور اگلے وی سی نے آتے ہی یہ فائل دوبارہ بند کردی۔ مجھے اس وی سی سے انٹریو کرنے کا اتفاق ہوا تھا جنہوں نے یونیورسٹی کو اندھا دھند ترقی کے راستے پر ڈالا تھا۔ ان پر یونیورسٹی کو نجی شعبے میں قائم تعلیمی اداروں کے ہم پلہ لانے کا جنون تھا۔ انہوں نے جہاں مرضی کی بھرتیاں کرکے ملازمین میں اضطراب پیدا کیا (یہاں تک کچھ کو جبری ریٹائرمنٹ کی جانب بھی دھکیل دیا ) وہیں پر اساتذہ کے کام میں اضافے کے علاوہ انہیں انتظامی معاملات میں پھنسایا۔ معاملات کو تہہ و بالا کرنے کے بعد وہ تو دوسری یونیورسٹی کے ریکٹر بن گئے لیکن اپنے بعد آنیوالوں کو پریشانیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کو اپنے اصلی مینڈیٹ جس میں اسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تعلیم دینا تھی،سے ہٹنا اور کمرشکل کرنا مہنگا پڑگیا ہے۔ اگر چہ سائنسی شعبہ جات نے اپنا معیار قائم رکھ ہوا ہے اور ان کی تحقیقاتی کاوشوں کی وجہ سے یونیورسٹی کا شما ر دنیا کی پانچ سو اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، لیکن اس معیار کو برقرار رکھنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے کہ طلبا کو جدید لیبارٹریز اور دیگر تحقیقاتی سہولیات کے علاوہ پر امن ماحول بھی چاہیے۔ چہ جائیکہ سماجی علوم کے شعبہ جات بھی آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ تازہ پریشانی طلبا میں بڑھتا اضطراب ہے جو باہمی جھگڑوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔ وجوہات کے حوالے سے مہنگائی ، فیسوں میں اضافہ ،سہولیات میں کمی اور غیر ضروری قواعد و ضوابط پر کسی کی توجہ نہیں جاتی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے نزدیک اس مسئلے کی وجہ ثقافتی تنوع، بین الصوبائی تعلقات میں کشیدگی اور منشیات ہیں۔ یہ سوچ اور طرز فکر آج کی نہیں بلکہ دہائیوں پرانی ہے۔ جو حل نکالا جا تا ہے وہ طلبا کو قواعد اور ضوابط میں مزید جکڑنے پر منتج ہوتا ہے۔ ایک وائس چانسلر نے تو باقاعدہ ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کی خدمات خرید لیں اور ہاسٹلز کے گرد دیوار بھی کھڑی کردی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ مقصد مسئلے کا حل نہیں تھا بلکہ کچھ لاڈلوں کو نوازنا تھا۔ اس وقت بھی صورتحال کشیدہ نہیں تو انتظامیہ کے کنٹرول میں بھی نہیں ہے ۔ یونیورسٹی ڈسپلن کمیٹی جھگڑوں پر فیصلے مہینوں موخر رکھتی ہے۔ اگر حالات بگڑتے ہیں تو سوائے یونیورسٹی کو بند کرنے کے کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ حال ہی میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور میں نے سنا ہے کہ موجودہ وائس چانسلر اس سوچ سے متفق ہیں وہ یہ کہ طلبا کو محصولات بڑھانے کا ذریعہ اور ان کے ثقافتی تنوع کو خطرے کی بجائے ایک اثاثہ تصور کیا جائے۔ اپنے طور پر طلبا جو بڑے کٹھن مقابلے کے بعد یہاں پہنچتے ہیں اور لڑائی جھگڑوں سے تنگ ہیں اور اپنا وقت تعلیم اور غیر نصابی سرگرمیوں میں گزارنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے ہی کشیدگی ختم ہوتی ہے تو اتن ، بھنگڑا ، جھمر ، چاپ اور لڈی کھیلنا انکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔قائدین ایلومنائی ایسوسی ایشن نے حال ہی میں حامی بھری ہے کہ وہ ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ ایسا وہ یونیورسٹی کے تشخص کو ابھارنے کے لیے کرنا چاہتی ہے اور اسے امید ہے کہ یوں ہم آہنگی کے ماحول کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ طلبا کی نمائندہ تنظیم قائدین سٹوڈنٹس فیڈریشن اور انتظامیہ کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں تقافتی تنوع کی نوعیت اور اس کے نتائج سماجی علوم کے ماہرین کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ تحقیق کے نتائج سے طلبہ تنازعات کے حل کا نظام وضع کیا جاسکتا ہے۔ دفاع اور حکمت عملی کا شعبہ اس حوالے سے مدد گار ہوسکتا ہے تو تنازعات کی وجوہات جاننے کے لیے شعبہ نفسیات اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یونیورسٹی کی فارغ زمین پر قبضہ مافیا کی للچائی نظریں ہٹانے کے لیے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور اسے شجرکاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہاں پر موجود کمیونیٹیز کو یونیورسٹی کے ثقافتی تنوع میں اضافہ شمار کیا جاسکتا ہے بجائے انہیں ڈرائیں ، دھمکائیں اور گاہے بگاہے انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کی ناکام کوشش کریں۔ میں جب بھی یونیورسٹی جاتا ہوں تو باب القائد سے گزرتے ہوئے یہی خیال آتا ہے کہ تحقیق کے لیے مختص ایک جامعہ اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکال پارہی تو ملکی ترقی میں یہ کیونکر حصہ ڈال سکتی ہے؟