قدرت کے کاموںمیں کوئی دخیل نہیں ہو سکتا اورنہ کسی کی بعد والی زندگی کے بارے کوئی حتمی بات ہی کہی جاسکتی ہے تاہم اس بات پرہمارا پورا گائوں ’’ ایک پیج ‘‘ پر تھا کہ مر حوم بابا نادر ، حال مشہور ’’ بابابہشتی‘‘، بعد از مرگِ ناگہانی (مُسرّت سامانی) کہیں بھی تشریف لے گئے ہوں ، لیکن جنّت میں نہیں گئے ہوں گے۔یہ واحد نکتہ تھا جس پر پورا گائوں سو فیصد متفق تھا۔بابا ناد رہمارے گائوں کا تگڑا زمیندار تھا بلکہ واحد تگڑا زمیندار۔کئی مُربّے زمین، کئی نوکر چاکر،بیسیوں ڈھور ڈنگر،وسیع حویلی اورکُشادہ ڈیرہ۔۔لیکن اس کشادگی کے باوجود بابا نادر کا دل انتہائی تنگ تھا۔وہ پرلے درجے کا بخیل اور شُوم واقع ہوا تھا۔اس بڑی جاگیر ،مال وزر کے ہوتے ہوئے کوئی ڈھنگ کی سواری اس کے پاس نہیں تھی! بس ایک اپنی ہم عُمر موٹر سائیکل رکھی ہوئی تھی جو اُسے چلانی نہیں آتی تھی لہذا اُس کے لئے باقاعدہ ڈرائیور رکھا ہوا تھا۔ بابا نادر کی اصل طاقت اُس کے دو بیٹے تھے! دونوں اعلیٰ افسر! ایک ڈی ایم جی میں اور دوسرا پولیس میں۔ان کی لال نیلی بتیوں اور ہوٹر والی گاڑیاں جب گائوں میں داخل ہوتیں تو ایک دفعہ تھرتھلی مچ جاتی۔ بابا جی کا واحد شوق لوگوں کو تنگ کرنا تھا۔ اذیّت پسندی تو گویا ان کی گھُٹی میں شامل تھی۔ ایذا رسانی کے نِت نئے طریقے تراشے جاتے اور پھر اُن کو لوگوں پر آزمایا جاتا۔ گالی گلوچ، مار کُٹائی یا پھر اپنے بیٹوں سے کہہ کر تھانے کچہری میں ذلیل و خوار کرنا ،روزانہ کا معمول تھا۔جھوٹے مقدمے اور ناجائز قبضے آپ کی شخصیّت کا خاصہ تھے ۔گائوں کے چوراہے پر آپ کا ڈیرہ تھا۔مجال ہے کہ کوئی ادھر سے گذرے اور آپ کے عتاب سے بچ جائے۔ بِلا تخصیص عُمر، کوئی بھی محفوظ نہیںتھا۔سارا گائوں ’’ نَکّ و نَک‘‘ آیا ہوا تھا۔بہت سارے لوگ گائوں چھوڑ چکے تھا۔اور باقی بچنے والوں نے سرِ دست سرِتسلیم خم کیا ہو ا تھا۔بابا جی نے مزاج بھی بے حد رنگین پایا تھا۔جب تک بدنی استطاعت رہی ، اُن کے دوسرے ’’ خصائص‘‘ چُھپے رہے، کبھی کوئی اور گِلا نہیں آنے دیا۔۔قویٰ مضمحل ہوئے اور استطاعت صرف نظری رہ گئی تو اس سے یوں استفادہ کرتے کہ اُستاد غالبـؔ کا یہ شعر مُجسّم بنے بیٹھے رہتے: گو ہاتھ کو جُنبِش نہیں آنکھوں میں تو دَم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے بابا جی کے ’’ کریڈٹ‘‘ پر کئی نیک کا م بھی تھے۔مثلاً گائوں کے ایک کونے پر ایک شاندار مسجد بنا رکھی تھی۔مسجد ھذا کی تعمیر کے لئے فریدے موچی کی مرضی کے برعکس اُس کے احاطے پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا۔ ایک کنال کی مسجد میں کوئی سولہ سترہ مرلے اسی احاطے سے لئے گئے تھے۔فریدا بہت رویا پیٹا تو اُسے اسی احاطے میں جوتیاں ماری گئیں۔وہ بیچارہ یوں ہی اعتراض کرتا تھا ! اُسے دیکھنا چاہئے تھا کہ آخر بابانادر نے بھی تو اسی کام کیلئے تین، چار مرلے دئیے تھے۔خیر! تعمیر ختم ہوئی تو’’ مسجد بابا نادر خاں ‘‘ کی تختی لگا دی گئی اور مسجد ایک مولوی صاحب کے حوالے کر دی گئی جو سارا دن گائوں والوں کو لائوڈ سپیکر پر بتاتا رہتا کہ بابا نادر کی صورت میں کتنی عظیم ہستی اُن کے درمیان موجود تھی۔ پھر بابا جی نے حج بھی تو کیا تھا۔حج پر اُن کے ساتھ اُن کے خاص ملازم بخشو کو بھیجا گیا ۔کسی بیٹے میں یہ تاب نہ تھی کہ بابا جی کے ساتھ جا سکے لہٰذا اُن کی دوائی اور دیکھ بھال وغیرہ کے لئے بخشو کو ساتھ بھیجا گیا۔بخشو اُن کا پیدائشی ملازم تھا،اُن کی گالیاں مندے اور ماریں سہہ کر جوان ہوا تھا اور ہمیشہ اُن کے رُعب اور قرضے تلے دبا رہا۔اُس نے واپسی پر بتایا ، ’’ اُن مقدّس ترین جگہوں پر بھی بابا جی نے مسلسل تنگ کئے رکھا۔وہاں ڈانٹ ڈپٹ کے لئے کوئی اور موجود نہیں تھا لہذا میں ہمہ وقت تختہ ِمشقِ ستم بنا رہا۔ایک دفعہ بابا جی کی ہمارے ایک ’’ روم میٹ ‘‘ حاجی سے تلخ کلامی ہو گئی اور بابا جی نے حسبِ عادت اُسے گالی نکال دی۔وہ حاجی کسی زمانے میں شاید پہلوان رہا تھا ! وہ باقاعدہ ’’ سٹارٹ ‘‘ لے کرآیا اور اپنے سر کی ’’ بکرا بو ‘‘ ٹائپ زور دار ٹکرباباجی کے پیٹ میں ماری،بابا جی چار پانچ فُٹ دور اُچھل کر کمرے کے کونے میں جا گرے! میں سمجھا کہ بابا جی کا آخری وقت آ گیا ہے۔کافی دیر ہاتھ پائوں کی تلیاں ملتا رہا ۔انہیں ہوش آیا تو مجھے اشارہ کیا کہ میں بھی اُس حاجی کو ماروں۔میں نے پہلوان حاجی کی طرف دیکھا تو اُس نے دوبارہ ’’ٹکّرپوزیشن‘‘ بنا کر میری طرف رُخ کر لیا۔میرے پسینے چھوٹ گئے اور میں دوبارہ تلیاں مَلنے لگا۔اس کے بعد اُس حاجی کی موجودگی میں بابا جی خاموش رہتے یا تسبیح کرتے رہتے‘‘۔ پچھلے رمضان میں بابا جی اچانک بیمار ہو گئے۔بیماری بڑھتی چلی گئی۔آخری عشرے میں حالت کافی ’’ سیریس‘‘ ہو گئی۔ جُمعہ آیا تو مولوی صاحب نے مسئلہ بیان کیا کہ رمضان میں اور خصوصاً ستائیسویں کی رات کو جو بندہ فوت ہو وہ سیدھا بہشت میں جائے گا۔ستائیسویںکی رات آئی تو بابا جی کی طبیعت انتہائی خراب ہو گئی۔گائوں والوں کو خبر ہوئی تو پورے گائوں والوں نے مُصلّے بچھا لئے۔ہر چھوٹا بڑا بابا جی کی زندگی کے لئے دُعا کر رہا تھا۔’’ یا اللہ ! آج کی رات نکل جائے ‘‘۔فریدا موچی کہہ رہا تھا،’’ اللہ! میری زندگی کی ایک رات کم کر کے بابا جی کو دے دے‘‘۔لیکن یہ ’’ پُر خلوص ‘‘ دُعائیںقبول نہ ہوئیں اور ستائیسویں شب عین سحری کے وقت بابا جی داغِ مفارقت دے گئے۔پورا گائوں سکتے میں تھا۔سب کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا،’’ ہماری زندگی جہنّم بنانے والا بہشت میں جائے گا ‘‘۔ صبح جنازے پر مولوی صاحب نے ایک طویل خُطبہ دیا جس کا لُبّ ِ لباب یہ تھا کہ بابا جی کا وصال اس مُبارک مہینے کی انتہائی بابرکت رات کی بیحد پاکیزہ ساعتوں میں ہوا لہذا اُن کے حصولِ جنّت میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ ایک نیک روح اعلیٰ مقام کی طرف پرواز کر گئی۔ آپ سب جان لیں کہ ہمارے بابا ’ بہشتی ‘ ہیں ۔آ پ لو گ صرف اُن کے درجات کی بُلندی کے لئے دُعا کریں۔۔۔بعد ازاں! اجتماعی دُعا میں مولوی صاحب جب گڑگڑا کر حُضور بابا جی کے لئے جنّت میں اعلیٰ مقامات کی دُعا کر رہے تھے، عین اُسی لمحے۔۔۔ میرے پہلو میںکھڑے فریدے موچی کا آٹھ ،دس سالہ معصوم سا بیٹا اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اُٹھائے انتہائی خشوع خضوع کے ساتھ بابا جی کے لئے جہنّم کے کسی نچلے درجے کی التجا کر رہا تھا۔ ’’با بہشتی ‘‘ قبر میں اُتر چکے تھے۔مولوی صاحب کے جذباتی خُطبے کے باوجود گائوں والے بابا جی کے آگے کے حالات کے بارے مخمصے کا شکار تھے۔۔ ایک معاملے پرالبتہ وہ پھرایک پیج پرتھے ،وہ یہ کہ بابابہشتی جہاں بھی گئے ہوں گاؤں والوں کی جان چھوڑکروہ گاؤں کوضرورجنت بنا گئے تھے۔