عمران خان ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کینسر سے جنگ کے میدان میں اترے۔ اس کام کے لئے انہیں بہت سے پرخلوص لوگوں کی ضرورت تھی۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کی ٹیم بن گئے۔ برطانیہ کے شہر گلاسگو میں ملک غلام ربانی نے پاکستانی کمیونٹی کو متحرک کیا۔ بھلے وقتوں میں لاکھوں روپے جمع کر کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لئے بھجوائے۔ میاں نواز شریف نے ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے لئے قرض اتارو ملک سنوارومہم شروع کی تو ملک غلام ربانی نے 26لاکھ روپے کے عطیات دیے۔ اب وہ ڈیموں کی تعمیر کے لئے ایک بار پھر سرگرم ہیں۔ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں چکوال سے گلاسگو آباد ہونے والے ملک غلام ربانی ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور عمران خان سے قریبی مراسم کے حوالے سے معروف ہیں۔ مختلف الخیال سیاسی شخصیات سے تعلق کی بنیاد صرف پاکستان ہے۔ ہمارے سینئر کالم نگار جناب اثر چوہان ملک غلام ربانی کو بابائے امن کہتے ہیں‘ معلوم نہیں ملک غلام ربانی اثر چوہان صاحب کو بابائے جنگ کیوں کہتے ہیں۔ بابائے امن اس بار وطن تشریف لائے تو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق اخترنے ان کے اعزاز میں ایک تقریب طعام کا انتظام فرمایا۔ لاہور جمخانہ میں نامور شخصیات موجود تھیں۔ ہمارے ہر دلعزیز گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف‘ جناب مجیب الرحمان شامی‘ جناب ضیاء شاہد ‘جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان روزنامہ جرأت کے چیف ایڈیٹر جناب جمیل اطہر‘جناب اثر چوہان‘ سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ برادرم سید شاہد رشید‘ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس(ر) محبوب احمد‘ گروپ ایڈیٹر نئی بات عطاء الرحمن‘ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ جناب سعید آسی‘ میاں سلطان احمد‘ ندیم بسرا‘ محترمہ صفیہ اسحاق‘ چودھری ناہید عمران گل‘ سیف اللہ چودھری علامہ نعیم احمداور چند ایک دیگر احباب نے قومی سیاست‘ چین کی ترقی اور ملک کے عمومی حالات پر گفتگو کی۔ اچھی بات یہ تھی کہ کسی نے تقریر کی نہ اختلاف رائے کو جھگڑا بنایا۔ اگرچہ شامی صاحب نے ایسے کئی نکات چھیڑے جن سے اختلاف کی گنجائش تھی۔ صفیہ اسحاق مسلم لیگ ن کی بے لوث کارکن ہیں۔ عطاء الرحمان صاحب کی وابستگی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عطاء صاحب کے دریافت کرنے پر کہ سوموار کو العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ کیا نواز شریف کے خلاف آئے گا۔ بیگم صفیہ اسحاق نے برجستہ کہا نواز شریف رہا ہوں گے۔ میں نے سوچا سیاسی کارکن اپنی قیادت سے کس قدر مخلص ہوتا ہے۔ ملک غلام ربانی خاموش طبع دانشمند ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات کا کھوج لگانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ہم لبرٹی مارکیٹ والے گول چکر سے گزرے۔ ایک بلند پلازے کی طرف اشارہ کر کے میں نے بتایا کہ اس جگہ ملکہ ترنم نورجہاں کا گھر ہوا کرتا تھا۔ نورجہاں کی اولاد نے اسے پلازے والوں کو فروخت کر دیا۔ اب یہ گھر اور اس کا گھاس سے بھرا وسیع لان دکانوں کے نیچے سسک رہا ہو گا۔ ملک غلام ربانی نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ اس گھر میں نور جہاں کے مہمان کے طور پر آ چکے ہیں۔ میں نے پوچھا اور کون کون سے گلو کاروں سے ملاقات ہوئی۔ ملک غلام ربانی نے بتایا کہ پاکستان کا ہر قابل ذکر گلو کار ان کا مہمان بن چکا ہے بھارت کے بہت سے گلو کاروں میں سے محمد رفیع کو متعدد بار ملک غلام ربانی نے گلاسگو مدعو کیا اور ان کے بے مثال فن سے حظ اٹھایا۔ ملک غلام ربانی دراصل ہر سال گلاسگو میں ایک کلچرل میلہ سجاتے ہیں۔ اس میلے میں پاکستان و بھارت کے فنکار اور شاعر شرکت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں انہیں لاہور کے چند اچھے شاعروں سے ملوائوں گا۔ انہوں نے مشہور شاعروں کا پوچھا‘ میں نے کہا کہ اچھے اور مشہور میں فرق ہوتا ہے۔ ہم مشہور صنعت کار اور ستارہ گروپ کے چیئرمین میاں ادریس کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے۔ تقریب میں سادگی متاثر کن تھی۔ ملک غلام ربانی بتانے لگے کہ چند روز قبل انہوں نے ایک ایسی شادی میں شرکت کی جس میں صرف پھولوں کی سجاوٹ پر 60لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا کیاچکوال کے لوگ اب بھی آپ سے ملتے ہیں۔ بتانے لگے کہ چند روز قبل گائوں سے چند ملنے والے لاہور آئے۔ انہوں نے فرمائش کر دی کہ ہمیں گورنر پنجاب چودھری سرور سے ملائیں۔ میں نے چودھری سرور سے ملاقات کرا دی۔ اب یہ سادہ لوگ گورنر پنجاب کے ساتھ بنائی تصویریں لوگوں کو دکھا کر خوش ہو رہے ہیں۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے خاندان سے ملک غلام ربانی کے گہرے تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کی تفصیل خاصی طویل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک خاموش رہنے والا یہ بزرگ اگرچہ برطانیہ میں رہتا ہے مگر اس نے کتنی ہی محبتوں اور رابطوں کی ڈوریاں پاکستان سے باندھ رکھی ہیں۔ لاہور جمخانہ میں بابائے امن کے اعزاز میں تقریب جاری تھی کہ نامور صداکار‘ میزبان اور صحافی و ادیب ابصار عبدالعلی کے انتقال کی خبر ملی۔ ساری محفل اس اطلاع پر سوگوار سی ہو گئی۔ یہاں موجود ہر شخص کا ابصار صاحب سے تعلق تھا۔ ابصار صاحب مولانا محمد علی جوہر کے نواسے تھے۔ کوئی دس برس قبل میرے عزیز دوست جاوید اقبال نے ان سے ملوایا۔ ابصار صاحب ریٹائرڈ ہونے کے بعد حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ ہر ہفتے وہ کسی اہم سیاسی و ابلاغیاتی موضوع کا انتخاب کرتے اور پھر اس موضوع پر مختلف شخصیات کو خیالات کے اظہار کا موقع دیتے۔ کارکن صحافیوں‘ صحافت کے طالب علموں اور سماجی و سیاسی کارکنوں کیلئے یہ سیمینار بہت مفید ثابت ہوتے۔ ابصار صاحب نے مجھے بہت بار مہمان مقرر کے طور پر بلایا۔ یہاں مجھے مختلف موضوعات پر مجید نظامی‘ شیری مزاری‘ فخر امام‘ عابدہ حسین‘ جسٹس محبوب احمد‘ سہیل وڑائچ ‘ سلیم بخاری‘ اسلم ترین‘ ڈاکٹر اعجاز گیلانی‘ سلمان عابد‘ مبشر لقمان اور بہت سی دیگر شخصیات کے ساتھ حاضرین سے خطاب کا موقع ملا۔ ابصار صاحب اس بات پر خاصے حیران ہوا کرتے کہ میں ہر موضوع پر قابل غور نکات ڈھونڈ لاتا ہوں۔ وہ مجھے اپنا اوپنر کہا کرتے تھے۔ آج وہ رخصت ہو گئے ہیں اور ہم سب انہیں یاد کر کے مغموم ہو رہے ہیں۔