آج بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا یوم پیدائش ہے۔ عظیم رہنمائوں کی زندگی ان کے پیروکاروں کے لئے نقش منزل ہوتی ہے اس لیے ان کو یاد رکھنا اور ان کی جدوجہد کو عام کرنا قوم کا فریضہ ہوتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک بے مثال رہنما ملا۔ قائد اعظم کے سیاست میں آنے سے قبل ہندوستان کے کئی ہندو اور مسلمان رہنما مقامی باشندوں کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کے لیے میدان میں اُتر چکے تھے۔ مسلمانوں کے پاس اپنی سیاست اور الگ سیاسی مقاصد نہیں تھے۔ جو مسلمان رہنما سیاسی طور پر متحرک تھے وہ ہندو اکثریتی سوچ کے ساتھ چلنا چاہتے تھے۔ اس سوچ کا حتمی نتیجہ ایک ایسے آزاد ملک کی صورت میں نکلتا جہاں برطانوی جمہوریت جیسا نظام نافذ ہوتا۔ ایسا ہونے کی صورت میں ملک پر ہندو اکثریت کا غلبہ ہوتا اور مسلمانوں کو مذہبی اور نسلی تعصب کا نشانہ بنایا جاتا۔ عید کے اجتماعات پر حملے ہوتے، گائے ذبح کرنے پر مسلمان ذبح کر دیئے جاتے اور اکثریت کا جب دل چاہتا مسلمانوں کی آبادیاں نذرآتش کر دی جاتیں۔ یوں سمجھیں کہ آج بھارت میں مسلمانوں کا جو حال ہے وہی حال سارے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ہوتا۔ کانگریسی قیادت نے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو اپنا ہمنوا بنا کر انہیں اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ دونوں قومیں مل کر انگریز سے آزادی کی جدوجہد کریں گی۔ اس ہم آہنگی کی نشوونما کرنے کے لیے کانگریس نے خود کو ایک سیکولر جماعت بنا کر پیش کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے محسن سرسید احمد خان انتباہ کر چکے تھے کہ مسلمانوں کو کانگریس کے جھانسے میں نہیں آنا چاہئے۔ پھر حضرت علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھی یہ بھانپ لیا کہ انگریز کو نکالنے کے بعد ہندو رہنما مسلمانوں کو غلام بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ کانگریس سے علیحدگی اور مسلم لیگ کی سیاست کو واضح مقاصد عطا کر کے قائد اعظمؒ نے ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ قوم سازی کے بغیر عظیم مقصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ سینکڑوں برسوں سے پسماندہ مسلمانوں کو ایک مقصد پر جمع کرنے کے لیے ان کی تربیت کی ضرورت تھی۔ بڑے بڑے نامور خطیب، دولت مند اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان رہنمائوں کی کمی نہ تھی۔ بس ایک ایسا رہنما نہیں تھا جو بکھرے اور منتشر لوگوں کو ایک قوم کی شکل میں ڈھال سکتا۔ قائد اعظمؒ وقت کے پابند تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل قائد اعظم نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ قائد اعظمؒ نے علالت کے باوجود تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے دیکھا کہ اگلی نشستیں خالی ہیں۔ منتظمین کو بلا کر تقریب شروع کرنے کی ہدایت کی اور خالی کرسیاں اٹھانے کا کہا۔ بعد میں آنے والوں کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔کئی وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی تاخیر سے آنے والوں میں کھڑے تھے۔ اس طرح انہوں نے سکھایا کہ وقت کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مسلمانوں کی سلامتی اور رواداری کس طرح عزیز تھی اس کا نمونہ اس واقعہ سے ملتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلباء کی یونین انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی۔ یونین کے وفد نے قائد اعظم سے یونیورسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی درخواست کی۔ قائد اعظمؒ نے طلباء کو مبارک باد دی اور نصیحت کی کہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے۔ اسی طرح آزادی کے بعد کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں ان میں کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ انگریز حکومت نے ایک قانون کے تحت سائیکلوں کے آگے لائٹ لگانے کا حکم دیا۔ ایک بار قائد اعظمؒ کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کون کون پاکستان میں شامل ہو گا۔ سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے۔ بابائے قوم نے پھر دریافت کیا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائٹ لگی ہے۔ صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا! آپ میں سے صرف یہ پاکستان میں جائے گا۔ نوجوانوں نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔قائد اعظمؒ کے فرمودات کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف تھے۔ بابائے قوم انسانی حقوق اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہر شہری کا حق سمجھتے تھے۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ رواداری پر مبنی اسلامی معاشرے کا قیام اہم رہا۔ ان ترجیحات کو اہمیت دینے سے آج بھی پاکستان کو داخلی و خارجی سطح پر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے جن اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے زندگی بسر کی اور قوم کی رہنمائی فرمائی ان اصولوں سے روگردانی نے قوم کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ آج پاکستان میں سرکاری وسائل کی لوٹ مار اور قانون شکنی سیاسی رہنمائوں اور سرکاری افسران کا وطیرہ بن چکی ہے۔ آئے روز ان اصولوں کی پامالی ہوتی ہے جو قائد اعظمؒ نے ہمیں عطا کیے۔ سیاست قوم کی خدمت کا نام ہے مگر قائد اعظمؒ کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں نے اسے ذاتی مفادات، بددیانتی، قومی خزانے پر ڈاکہ اور عوام کے حقوق غصب کرنے کا کھیل بنا دیا۔ قوم کی اجتماعی نفسیات تباہ ہو چکی ہیں وقت پر کسی کام کا آغاز اور تقریب کی ابتداء اب خواب و خیال کی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس، ایوان صدر، گورنر ہائوسز اور سرکٹ ہائوسز کے اخراجات کی جو تفصیل سامنے آتی رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عالیشان عمارتوں کا انتظام چلانے والے قائد اعظمؒ سے واقف ہیں نہ ان کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہتے ہیں۔ افسوسناک امر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو بابائے قوم تسلیم کرنے کے باوجود ہم نے ان کی حکم عدولی کی۔ آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قائد اعظمؒ کے پاکستان میں رہنے کا حق صرف اسے ہے جو قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے۔