6دسمبر1992کی رات ، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمائندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انہوں نے دنیا کو بتایا کہ مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن 12 بجے کے بعد سے کسی بھی میڈیا ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابط نہیں ہو پا رہا تھا۔ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہندو قوم پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں بھی تقریباً اسی وقت دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو جے شری رام ، مندو وہی بنائیں گے اور بابر کی اولادوں کے نام انکی دشنام طرازی کے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔گو کہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔ خیر پچھلے سال نومبر میں سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلہ کے بعد تو مسجد ایک قصہ پارینہ بن ہی گئی تھی، اب پچھلے ہفتے اس کو مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنوٗ کی خصوصی عدالت نے بری کرکے انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کروادیا۔ پچھلے 28 سالوں سے جس طرح اس مقدمہ کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس سے کچھ زیادہ امید یں تو نہیں بندھی تھیں، مگر سپریم کورٹ نے جب مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی، تو مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ عدالت اعظمیٰ نے یہ تسلیم کیا کہ 1949ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر 1992ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے۔ اس کے علاوہ عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دیکر صاف کردیا کہ 1528ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران ، جو اشیاء پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر 11ویں صدی میں کوئی عمارت موجودہ تھی، جو تباہ ہوچکی تھی۔ یعنی 500سالوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔ ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ا یک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دیکر ایک مثال قائم کی جائیگی۔ مگر 2000صفحات سے بھی زائد اپنے فیصلہ میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو درکنا ر کرتے ہوئے تمام 32ملزمان کو بری کر دیا۔ جس طرح اس کیس کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس کا میں خود گواہ ہوں۔ استغاثہ نے جن 351گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، ان سے متواتر معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔اور جب نوٹیفکیشن جاری کی تو اسمیں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو خدا کرکے 2010میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کہنے پر دور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یکجا کرکے لکھنوٗ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔ معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف 6دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شام ہوکر ریہر سہل میں حصہ لیکر اس کو تصویریں بھی کیمرہ میں محفوظ کر دی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے کے بعد ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے ان کو بطور گواہ بنایا تھا۔ اس دوران انکو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھااور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے معاندانہ رویہ کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ خود ایک درد بھری داستان ہے۔ سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کیلئے روانہ ہوتے تھے۔ دن بھر عدالت کے باہر اردلی کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے۔ جین کے بقول کئی سالوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن ان کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اوران کا بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ ان کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گالی دیکر دھمکی بھی دے ڈالی۔ جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ان کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جج نے حکم دیا کہ ان کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ اب پہلے اس کیس کا نپٹارہ ہونا چاہئے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دے دی۔ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ وہ اپنا وکیل مقرر کریں ، کیونکہ اب پہلے انکو عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا۔ تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔ اس طرح دوبارہ کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ بس تصویریں کافی نہیں ہیں، 6دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کریں۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انہوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے پرانے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں۔ آخرکئی دہائی قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی سالوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن ایودھیا میں تھے مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ان کی تصویریں قابل اعتبار نہیں ہیں، اس لئے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہونگے۔(جاری)