چالیس دن کی اعصاب شکن بحث کے دوران مسلم فریقین نے بار بار لاہور کے شہید گنج گوردواہ کی مثال دیتے ہوئے ، دلیل دی کہ بابری مسجد کا معاملہ ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ ہے۔ وہاں پر مندر یا مسجد طے کرنے کا معاملہ شامل بحث ہی نہیں ہے۔ میجر جنرل الیگزندر کنیگہم کے مطابق 1500قبل مسیح میں اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا تھااور پھر 1300برسوں تک یہ غیر آباد رہا۔تب تک عیسائی نہ مسلمان ہی جنوبی ایشیا میں آئے تھے۔ اس دورا ن دریائے سورو نے بھی کئی رخ بدلے ہونگے۔ آخر اب ہی کیسے طے ہوسکے گا کہ بھگوان رام کئی لاکھ برس قبل اسی مسجد کے محراب کے پاس پیدا ہو گئے تھے؟ مسلم فریقین کے وکیل راجیو دھون نے کورٹ کو بتایا کہ صرف پچھلے پانچ سو سالوں میں ہی دریا نے کئی رخ بدلے ہیں۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندو فریقین سے کہا کہ دنیا کا ایک دستور ہے تہذیبیں دریا کے کناروں پر بستی چلی آ ئی ہیں، اور جب انکا دور ختم ہو جاتا تھا تو دیگر تہذیبیں کھنڈرات کو دوبارہ آباد کرتی آئی ہیں۔ اس کی واضع مثال ازبکستان کا شہر سمر قند ہے۔ اب آپ کیسے یہ ثابت کرو گے کہ مسجد کے نیچے کے کھنڈرات کسی عبادت گاہ کے ہی تھے اور وہ بھگوان رام کی رہائش گاہ بھی تھی۔ جب جج نے ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ سے خسر ہ ور زمین کے دستاویزات کے بارے میں پوچھا ، تو ان کا جواب تھا کہ یہ نزول زمین ہے، مگر ٹیکس ریکارڈ میں یہ اکھاڑہ کی جائیداد ہے۔ جب جج نے ٹیکس ریکارڈ پیش کرنے کیلئے کہا تو جواب ملا کہ 1982 ء میں ایک ڈکیتی کی واردات میں وہ ضائع ہو گئے ہیں۔ سماعت کے دوران راجیو دھون نے بار بار لاہور کے شہید گنج گوردوارہ کا ذکر کر کے عدالت کو بتایا کہ وہ حد قانون یعنی Law of Limitationکا اطلاق کرکے زمین کے اس رقبہ کو مسلمانو ں کے حوالے کردے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں لاہور کے کوتوال عبداللہ خان نے 1654ء میں شہید گنج مسجد تعمیر کی۔ 1791ء میں جب سکھوں نے لاہور پر قبضہ کیا تو وہاں فوجی کیمپ نصب کردیا اور اسکو گوردوارہ میں تبدیل کیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار limitation Law of کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ اس دوران اس مسجد کے حصول کے نام پر پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ عدالت نے سوال کیا کہ آخر پچھلے 51سالوں میں مسلمانوں نے دعویٰ کیوں پیش نہیں کیا؟ 1935 ء میں پنجاب کے انگریز گورنر سر ہربرٹ ایمرسن نے ثالشی کرکے درمیانہ راستہ نکالنے کیلئے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے مسجد کی عمارت ہی ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد سے ناراض مسلمانوں نے جلوس نکالا تو کئی افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ ایک سال بعد پنجاب میں یونینسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا، تو عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تحویز پیش کی۔ اسی طرح کی تجویز حال ہی میں ہندو انتہا پسندوںکی مربی تنظیم آر ایس ایس اور شیوسینا نے بھی دی ہے۔ ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ حد قانون کا حوالہ دیکر یہ زمین مسلمانوں کے حوالہ کرتی ہے تو دسمبر کے پارلیمنٹ سیشن میں قانون سازی کے ذریعے بابری مسجد کی املاک کو ہندوئوں کے حوالے کرکے وہاں ایک عالی شان مندر تعمیر کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ جس کا افتتاح اگلے عام انتخابات سے قبل کیا جائیگا۔ ان کا کہنا ہے عقیدے سے متعلق فیصلے عدالتوں پر نہیں چھوڑ دینے چاہئیں۔ معروف قانون دان اور مورخ اے جی نورانی کے بقول جب اسی طرح کی تجویز مسلم لیگ کے کئی ارکان نے 1937 ء میں پنجاب اسمبلی میں پیش کی تو بانی پاکستان محمد علی جناح نے اسکو رد کر دیا ۔ جناح کے شدید ناقد ہونیکے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انہوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عملداری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے 70سال بعد بھی یہ گوردوارہ آب و و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھا کہ پاکستان میں اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے انگریز عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔بھارت کے ایک مشہور دانشور امریک سنگھ نے ایک بار سوال کیا تھا کہ جب اسلامی پاکستان میں ایک ایسے گوردوارہ کو تحفظ مل سکتا ہے، جس پر خون کی ندیاں بہہ گئی ہوں، تو حد قانون کا اطلاق کرتے ہوئے سیکولر بھارت میں بابری مسجد کو بازیاب کرواکے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر کیا آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے؟ معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتاب Dishonour: Destruction of Babri Masjid A National میں 30ستمبر 2010ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ کے فیصلہ کے حوالے سے لکھا ہے ، کہ اس نے بھارتی عدلیہ کی شبہہ مجروح کی ہے۔ ججوں نے قانون اور شواہد کو طاق پر رکھ عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کربابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنادیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارہ کی بھی تجویز دی۔نورانی کے مطابق ایسے فیصلہ کی نظیر دنیا بھر کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو شامل بحث تھے ہی نہیں۔انہوں نے قانون اور آئین کی پروا کئے بغیرکہا کہ Limitation Law of کا اطلاق ہندو دیو ی دیوتائوں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر جہاں ان دیوتائوں کی نشانیاں ہوں؛یعنی کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی بھی مورتی، چاہے وہ پتھر کا ٹکڑا ہویا کسی درخت کی شاخ یاپتہّ، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے۔چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی کیوں نہ مقیم ہو۔(جاری ہے)