بابری مسجد کیخلاف بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل مذمت و مسلم امہ کیلئے تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ فیصلہ آر ایس ایس و بی جے پی کے منشور کا تسلسل ہے۔بابری مسجد کے معاملے میں بھارتی عدالت نے انصاف کا قتل کیاہے۔ سیکولر ازم کے دعوے داروں نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کو ان کا حق کبھی بھی نہیںدیں گے۔ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں جب کہ اقلیتوں کو اپنے عقائد اور عبادت گاہوں پر تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ ایک طرف انتہا پسند ہندوستان کا بدصورت چہرہ تو دوسری طرف پاکستان نے دوسرے مذہب کا احترام کرتے ہوئے گرونانک کی 550ویں سالگرہ کے موقع پرکرتار پور کوریڈور کھول دیا ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس دن کرتارپورراہداری کا افتتاح ہے عین اسی دن یہ فیصلہ سنانے کی کیا وجہ ہے؟ اس سے پتا لگتا ہے کہ یہ بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)کی سازش ہے۔فیصلے سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ پربے پناہ دباؤ ہے اور مودی کی سیاست نفرت کی سیاست ہے۔ بی جے پی نفرت کے بیج بورہی ہے۔ بھارت کے مسلمان پہلے ہی دباؤ میں تھے اور اب اس فیصلے کے بعد مزید دباؤ بڑھے گا۔ اقبال انصاری نے جو کہ بابری مسجد کیس میں اہم مدعی تھے ، فیصلے کے بعد کہتے ہیں کہ ’اگر وہ ہمیں زمین دینا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری سہولت کے حساب سے حکومت کی حاصل کردہ 67 ایکڑ اراضی میں سے ہی دیں تو ہم لیں گے ورنہ ہم اس پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چودہ کوس (میل) دور جاکر مسجد بناؤ۔ پاکستان ہندو کونسل کے چیئرمین رمیش کمار نے کہا ہے کہ بابری مسجد کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازعہ ہے۔ کسی کی مذہبی عبادت گاہ کی جگہ دوسرے کی بنانا درست عمل نہیں ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہندوؤں کو دہشت گردی میں ملا دیا جائے گا۔بابری مسجدکی زمین پانچ سوسال سے مسلمانوں کی تسلیم شدہ پراپرٹی ہے۔پچھلے 100سال میں بھی بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتے کوکوئی فیصلہ نہیں سنایا ہوگا لیکن بھارتی سپریم کورٹ پر دھبہ ہے کہ چھٹی کے روز ہفتے کو بابری مسجد پراپرٹی کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ دو خاندان اکثر ایک زمین کے ٹکڑے پر لڑتے ہیں۔ لیکن دو برادریوں کو اس قسم کی لڑائی کیوں لڑنے دی گئی؟ یہ اس لیے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے تقسیم کرنے والی سیاست پر اکسایا اور بدقسمتی سے آج ہم اسی کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ جس طرح سے ہر طبقے کے لوگوں نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا ہے اس سے اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے انتہائی تحمل سے سب کی بات سنی اور سب کو مطمئن کرنے کے لیے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے اور اس کے لیے ججز، عدلیہ اور عدالتی نظام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ نسلوں سے پورا ملک مندر، مسجد تنازعے میں تقسیم تھا۔ لیکن اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ذریعے ختم ہوچکا ہے۔وہیں پجاریوں کا ایک گروپ اپنے مذہبی لباس میں خوش تھا کہ بالآخر متنازع زمین پر رام مندر تعمیر ہوگا۔ حقیقت میں بابری مسجدکا فیصلہ صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ بھارت کے معاشرے کی ہم آہنگی کا سوال ہے۔ ایودھیا کیس کے فیصلے کے بعد اب یہ مستقبل میں انڈیا کی اقلیتوں کی حیثیت کا سوال ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہندو اور مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے افراد آنے والے دنوں میں اس فیصلے کو کیسے تسلیم کریں گے کیونکہ ابھی تو معاملہ بہت نازک ہے۔ ہر کوئی خاموش ہے، لیکن آخر کتنے دن تک۔‘دیکھنے میں بابری مسجد اور رام مندر کا مسئلہ اسی دن سیاسی طور پر ختم ہوگیا تھا جس دن بابری مسجد کو شہید کیاگیا تھا۔یہ مسئلہ ہی ایک سیاسی جماعت بی جے پی کو اچانک ملک کی مرکزی سیاست اور پھر حکومت میں لایا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تمام سیاسی رہنماؤں اور درخواست گزاروں نے تسلیم کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں (لوگوں کو) تقسیم کرنے کی صلاحیت ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بابری مسجد کی حیثیت رام مندر کی تھی تو ہندوؤں نے فرنگی عہد حکومت کے دوران یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا۔ اب سینکڑوں برس گزرنے کے بعد ہندوؤں کو کیوں یاد آرہا ہے کہ اس مقام پر رام مندر موجود تھا، جسے گرا کر مسجد تعمیر کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی مہم، مسلمانوں پر غلبہ پانے اور ان کا ملی تشخص مٹانے کے مترادف ہے۔ بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت کی نظر کرم پاکستان پر بھی ہے اور بھارت کے کٹر ہندو اسے بھی بابری مسجد ہی سمجھتے ہیں اور ان کی یہ سوچی سمجھی سازش ہے کہ پاکستان کا وجود ختم کیا جائے۔ آج مصلحت کے تحت بھارت پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھر رہا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ وطن عزیز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے واقع کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایڈوانی کا اس واقع میں کیا کردار تھا۔ انہوں نے ہی رتھ یاترا کا اہتمام کیا اور پورے ہندوستان کے ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکایا۔ پھر جب ہندو بابری مسجد شہید کر رہے تھے تو ایڈوانی وہاں موجود تھے بلکہ اس موقع پر انکی تصویریں بھی اخبارات میں چھپی تھیں۔ انکی بہو نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت میں پوری طرح ملوث تھے۔ اگر ایل کے ایڈوانی رتھ یاترا کا اہتمام نہ کرتے اور ہندوؤں کو اشتعال نہ دلاتے تو بابری مسجد کا وجود برقرار رہتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ایڈوانی سابق حکمران جماعت کے مرکزی لیڈر اور بھارت کے نائب وزیر اعظم تھے بلکہ سابق وزیراعظم واجپائی ان کے مشورے کے بغیرکوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔