معزز قارئین!۔ پرسوں (15 ربیع اُلاوّل ، 24 نومبر کو ) لاہور میں روزنامہ ’’ 92 نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف (گیلانی) کی صاحبزادی سیّدہ آمنہ شاہ کی (لندن واسی) سیّد حسن علی شاہ گیلانی سے شادی میں میری اپنے کئی دوستوں اور شناسائوں سے ملاقات ہُوئی جو عام طور پر نہیں ہو سکتی تھی ۔ کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا کہ … بیٹری دا پور ، ترنجن دِیاں کُڑیاں! پھیر نہ بیٹھن رَل کے! یعنی۔ ’’ گُزرا ہُوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا ، کشتی کے مسافر اور شادی کے بعد ترنجن ( چرخہ کاتنے کی محفل) میں چرخہ کات کر گیت گانے والی لڑکیاں شاید ہی کبھی اکٹھی ہو سکیں ‘‘۔اُن دِنوں ارشاد احمد عارف ’’ نوائے وقت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے اور مَیں کالم نویس۔ موصوف کبھی کبھی میرے کالم کو ’’ خُوش رنگ‘‘ بھی بنا دیتے تھے ۔ جب ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہُوئی تو، مَیں سوچتا ہُوں کہ ،یقینا کچھ نہ کچھ ثواب تو جناب مجید نظامی اور برادرم ارشاد احمد عارف کو بھی ملا ہوگا؟۔ مَیں وطن واپس آیا تو میرے کئی بے تکلف دوستوں نے پوچھا ’’ یار اثر چوہان !۔ تم خانۂ کعبہ کے اندر کیسے داخل ہوگئے؟۔ مَیں نے کہا کہ ’’گنہگاروں کے کوٹے میں ، یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ کِس گنہگار کے لئے جب چاہے ثوابؔ کا انتظام کردے‘‘۔ ’’ غوث اُلاعظم ‘‘ شیخ عبداُلقادر جیلانی/ گیلانی کا ایک شعر ہے کہ … بشارت داد آں سُلطان ، متر سید اے تہی دستاں! کہ گنجِ رحمت رحماں ، نثار ہر گنہگار ست! یعنی۔ ’’عجیب بات ہے کہ بادشاہِ جہاں ( اللہ تعالیٰ ) نے از راہِ عنایت فراواں، اعمالِ حسنات سے عاری اور گناہوں میں ڈُوبے اِنسانوں کو بشارت دِی ہے کہ ’’ تُم! ہر گز نہ ڈرو! کیونکہ پروردگار کی رحمت کا خزانہ تمہارے لئے وقف ہے‘‘۔ سیّدہ آمنہ شاہ کی ’’ شادی ‘‘ ( رُخصتی) کی تقریب میں ، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین ، روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے مالکان میاں محمد حنیف ، میاں عبداُلرشید ’’ مسلک صحافت‘‘ سے وابستہ سینئر اور جونیئر خواتین و حضرات ، انفارمیشن گروپ کی اہم شخصیات ، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود ، موجودہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات خواجہ شفقت جلیل اور چیئرمین "PEMRA" پروفیسر محمد سلیم بیگ کی شرکت پر انگریزی زبان کا یہ محاورہ (Phrase ) صادق آتا ہے کہ "a Man is Known by the Company he keeps"۔ سیّد انور محمود کے والد (مرحوم ) صوبہ بہار کے سیّد محمود صاحب اور اُن کے بزرگوں کے ہزاروں مریدوں اور عقیدت مندوں کا تحریک پاکستان میں اہم کردار رہا ہے ۔ خواجہ شفقت جلیل کے والد (مرحوم) بھیرہ (ضلع سرگودھا ) کے خواجہ محمد جلیل اور پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب مرزا شجاع اُلدّین امرتسری بھی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے ۔ شادی ہال میں بہت سے "Tables" (میزیں) سجی تھیں۔ ہر میز کے گرد دس ، دس مہمان کرسیوں پر براجمان تھے ۔ جنہیں "Table Talk" اور اپنی میز سے اُٹھ کر دوسری میز پر جانے کی مکمل آزادی تھی۔ مجھے تقریبِ شادی میں لے جانے کے لئے پروفیسر محمد سلیم بیگ میرے ڈیرے پر ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آگئے تھے ۔ اُن کے ساتھ اُن کے "Ravian" دوست ، اردو بازار کے ممتاز پرنٹرز و پبلشر محمد ذکریا بٹّ بھی تھے ۔ جن کا خاندان دو سو سال سے لاہور میں رہ رہا ہے اور موصوف کو لاہور اور ’’ لاہور یات ‘‘ کے بارے میں اتنی معلومات ہیں کہ اُنہیں مکمل "Encyclopedia" کہا جاسکتا ہے ۔ سلیم بیگ صاحب کے ساتھ مَیں شادی حال میں داخل ہُوا تو ،رونامہ ’’92 نیوز‘‘ کے میرے دو ساتھیوں ! ۔ برادران اشرف شریف سندھو اور امتیاز احمد تارڑ نے ہمیں اپنی محبت کے حصار میں لے لِیا اور ہمیں ایک میز پر بٹھا کر ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ میز پر برادران سعید آسی ، خوشنود علی خان ، اویس خوشنود، پرویز بشیر ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف، سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید ،سیّد حمزہ گیلانی رونق افروز تھے ۔ جنہوں نے اپنی میز پر "Table Talk" کے بعد وقفوں وقفوں سے دوسری میزوں پر جا کر کُرسیاں سنبھال لیں۔ اِس طرح وہ اُن حضرات کے ’’ میزبدل بھائی‘‘ بن گئے۔ چونکہ مَیں فی الحال مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہُوا اِس مَیں کسی اور میز پر جا کر کسی کا ’’ میزبدل بھائی‘‘ نہیں بن سکا۔ معزز قارئین!۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ’’ وہ پروفیسرز ( اساتذہ) کچھ عرصہ کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں گزاریں تو ، اُنہیں"Visiting Professors" (مہمان پروفیسرز) کہا جاتا ہے ۔ شادی میں شریک بعض مہمان بھی (s Visiting Guest) کی طرح چند لمحوں / زیادہ لمحوں کے لئے ہماری میز پر بیٹھ کر کبھی کھڑے ہو کر ہم سے "Table Talk" کرتے رہے ۔ اُن میں برادران مسلم لیگ (ضیاء ) کے سربراہ اعجاز اُلحق ، مجیب اُلرحمن شامی، اوریا مقبول جان ، خواجہ شفقت جلیل ، رحمت علی رازی ، خاور نعیم ہاشمی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف شامل ہیں اور کئی دوسرے ۔ مجھے اپنی کُرسی سے اُٹھ کر تقریباً دو سو (200 ) سال بعد برادرِ عزیز حسن نثار سے جھپی ڈالنے کا بہت مزہ آیا۔ درحقیقت محبت کے اظہار کے فن میں حسن نثار مجھ سے زیادہ ماہر ؔہیں ۔ مجھے برادرم ارشاد احمد عارف سے بھی جھپی ڈالنے کا موقع مِلا۔ اُن کی آنکھوں میں اُداس لیکن ، خوشگوار چمک تھی۔ مَیں اُن کا ’’ دُکھ اور سُکھ‘‘ بخوبی سمجھتا ہُوں۔ اِس لئے کہ مَیں بھی چار بیٹیوں کا باپ ہُوں اور مَیں اپنی ہر بیٹی کو دلہن کے رُوپ میں اُس کے دُلہا کے ساتھ رُخصت کر چکا ہُوں ۔ ارشاد احمد عارف صاحب کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ سیّد خورشید احمد گیلانی (مرحوم) سے بھی میری دوستی رہی ہے ۔ وہ اپنی گفتگو اور تقریروں میں اکثر فارسی اشعار شامل کِیا کرتے تھے اور اُس کی شرح بھی خود بیان کِیا کرتے تھے ۔ماشاء اللہ حیات سیّد ارشاد احمد عارف گیلانی اور سیّد خورشید احمد گیلانی (مرحوم) کی تعلیم و تربیت پر اُن کے والدِ مرحوم ضلع راجن پور کے علاقہ شکار پور کے نامور عالم دین سیّد احمد شاہ گیلانی (مرحوم ) نے بہت توجہ دِی تھی ۔ علاّمہ اقبالؒ نے ’’ دُخترانِ ملّت‘‘ کے عنوان سے فارسی زبان میں 8 قطعات کہے ہیں ۔ ایک قطعہ میں علاّمہ صاحب ؒ نے ہر دَور کی ہر ’’دُخترِ ملّت اسلامیہ‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا کہ … اگر پَندے ، زدرویشے ، پذ یری! ہزاراُمتّ بمیرد ، تو نہ میری! …O… بتولے باش، و پنہاں شو ، ازیں عصر ! کہ در آغوش ، شبیر ؑے بگیری! یعنی۔ ’’ اے بیٹی !۔ تو اِس درویش (اقبالؒ) کی نصیحت پلّے باندھ لے تو ،ہزار قومیں مر جائیں گی لیکن تُو نہیں مرے گی۔ تو سیّدہ فاطمۃ اُلزہرا سلام اللہ علیہا بن اور اِس دور سے پنہا ں ، تاکہ تُو کسی شبیر (امام حسین ؑ ) کو جنم دے سکے!‘‘۔ معزز قارئین!۔ متحدہ ہندوستان اور بعد میں پاکستان میں بیٹوں ، بیٹیوں کی شادیوں پر گیتوں کا رواج تھا / ہے۔ قیام پاکستان سے قبل سِکھ ریاست نابھہ ( نابھہ شہر ) میں 1945 ء میری دو پھوپھیوں کی شادی پر لڑکیوں / خواتین نے جو گیت گایا تھا اُس کے بول یوں تھے … وِیر بنڑا ، مورا آیا بگیّن میں، باغے کی کِھل گئی ، کلّی کلّی پہلی کلّی پہ نورِ محمدؐ دُوجی کلّی پہ علی ؑ علی ؑ! میری چار بیٹیوں کی شادیوں پر لڑکیوں/ خواتین نے دلہن اور اُس کے بابل ؔ ( باپ ) کی طرف سے پنجابی کا یہ لوک گیت گایا ۔ دلہن کی طرف سے کہا گیا کہ … ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے! بابل اسیں اُڈّ جانا! ساڈی لمی اُڈاری وَے! بابل کِس دیس جانا! اور بابل کی طرف سے کہا گیا کہ … تیرا اللہ بیلی نی،دِھیے گھر جا اپنے ! برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف مطمئن ہیں کہ سات سمندر پار (لندن) میں اُن کی بیٹی سُکھی رہے گی۔ شادی کے سارے شُرکاء کی بھی یہی دُعا ہے کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔