یہ حقیقت ہے کہ آصف زرداری میاں نواز شریف سے زیادہ علیل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاق پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما کی لاش کو سندھ بھیجنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ صحت کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی ضمانت کے بعد حکومت نے آصف زرداری کی رہائی کا اشارہ دے دیا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ آصف زرداری کا نام ای سی ایل سے ہٹایا جائے گا یا نہیں؟ اگر نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی سہولت میسر ہو سکتی ہے تو آصف زرداری کو کیوں نہیں؟ مگر اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی وہی سلوک اختیار کیا جائے گا جو میاں نواز شریف کی بیٹی مریم سے کیا گیا؟ ملک کے سیاسی پرندوں کے لیے جس طرح پنجرے کا دروازہ کھول دیا گیا؛ اس سے نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت بلکہ ملکی انصاف کا امیج بھی متاثر ہو سکتا۔ اس لیے ان عام قیدیوں کی صحت کے سلسلے میں بھی کچھ نہ کچھ کیا جائے،جنہوں نے جرم کم کیا مگر ان کو سزا زیادہ ملی۔ اس کا سبب صرف یہ تھا کہ انہوں نے کوئی سیاسی جماعت نہیں بنائی اور نہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنے۔ اس لیے ان کو علاج کی وہ سہولیات بھی میسر نہیں جو ان سابق قیدیوں کے لیے ناکافی تھیں جن پر سیاسی مقدمات نہیں بلکہ کرپشن کے کیسز تھے۔یہ سچ ہے کہ ہمارے سسٹم میں بہت کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے عدالت میں جرم کے ثبوت پیش نہیں ہو سکتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے جرم نہیں کیے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ ان کے لیے سیاست ملک بنانے کا نہیں بلکہ دولت کمانے کا ذریعہ تھا ۔ انہوں نے سیاسی طاقت سے دولت بھی بنائی؛ اعلی عہدے بھی لیے اور جب گرفتار ہوئے تو سیاست کی طاقت نے انہیں آزاد بھی کروایا۔ جب سیاست کا استعمال اس طرح ہوگا تو پھر جمہوریت اور آمریت میں کون سا فرق باقی بچے گا؟جس ملک میں قانون کے رکھوالے ہسپتال میں داخل ہوکر قانون کی دھجیاں اڑائیں اس ملک میں قانون کی عزت اور اہمیت کتنی ہوگی؟ جس ملک میں قانون کی عزت نہیں اس ملک کی عالمی برداری میں عزت کیسے ہوسکتی ہے؟اصل مسئلہ قانون پر عمل در آمد نہ ہونے کا ہے۔اگر قانون پر عمل ہوتا تو پہلے میاں نواز شریف اور اس کے بعد آصف زرداری کو رعایت حاصل نہ ہوتی۔ جس معاشرے میں عام آدمی کو بنیادی حق حاصل نہیں؛ اس معاشرے میں خاص لوگوں کو قانونی رعایت حاصل ہو تو پھر ہم کس معاشرے کا تصور کر سکتے ہیں؟ قانون جب کھلونا بن جائے۔ تب مرزا غالب کے ان الفاظ میں ایک وسیع معنی میںسماجاتی ہے: ’’بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے‘‘ یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ صرف تماشہ نہیں بلکہ دل خراش تماشہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے کافی وقت سے سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کو سندھ کارڈ استعمال کرنے نہیں دیتے مگر اس بار کوما میں پڑے ہوئے سندھ کارڈ کے ہاتھ میں اس وقت تھوڑی جنبش دیکھی گئی جس وقت آصف زرداری کو ضمانت ملی اور سندھ میں ان کے سخت ترین مخالفین نے بھی خاموشی اختیار کی۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب زرداری صاحب کی سخت علالت ہو۔ ممکن ہے کہ زرداری مخالف لوگوں نے انسانی ہمدردی کو مدنظر رکھتے ہوئے آصف زرداری کی ضمانت پر احتجاج نہ کیا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ زرداری کی ضمانت پر خاموشی صرف انسانی ہمدردی کے باعث نہ ہوئی۔ اس میں سندھی قوم پرستی کا ایک عنصر شامل ہے۔ زرداری اب سیاسی شکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے مگر اس موسم میں سندھ کے وہ شکاری بہت سرگرم ہوجاتے ہیں جو کئی ماہ سے کارتوس بھر کر رکھتے ہیں۔ جب بھی موسم سرما میں باد شمالی چلتی ہے تو سائبریا اور دوسرے سرد ممالک سے خوبصورت پرندے سندھ کی جھیلوں پر اترتے ہیں اور شکاری ان کا ہر طرح سے شکار کرتے ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف سندھ کے وڈیروں کے پاس شکار کرنے کے لیے دوسرے دوسرے صوبوں اور شہروں سے مہمان آتے ہیں بلکہ سندھ کے دیہاتوں اور چھوٹے شہرو ں میں ان پردیسی پرندوں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ سندھ کے شمالی علاقوں میں موسم گرما میں جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب کہ جنوبی سندھ کے علاقے موسم گرما میں بھی مناسب محسوس ہوتے ہیں۔ یعنی موسم گرما میں جیکب آباد؛ لاڑکانہ؛ سکھر اور دادو میں مسافری کرنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ بھی موسم گرما میں دوپہر کو ایک بجے کے بعد گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں ؛ جب کہ ٹھٹہ؛ بدین اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں شدید گرمی نہیں ہوتی۔مگر موسم گرما گذرنے کے بعد دادو، جیکب آباد، لاڑکانہ اور سکھر میں جس طرح حد نظر تک سرسوں کے پھولوں سے لہلہاتے فصل لہراتے ہیں ان کی ایک جھلک ہی انسان کا دل مسرت سے بھر دیتی ہے۔ اس موسم میں مہمانوں کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے۔ اس موسم میں لوگ اپنے کھیتوں کی طرح خوش نظر آتے ہیں۔ اس موسم میں رات دیر تک آگ کا الاؤ جلا کر گاؤں والے مہمانوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں۔ اس موسم میں شمالی سندھ بہت خوش ہوتا ہے۔ اس موسم میں شمالی سندھ بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ اس خوبصورتی کی ایک وجہ بڑی جھیلوں اور چھوٹے تالابوں پر اترنے والے پردیسی پرندے بھی ہوتے ہیں مگر بدصورت بات یہ کہ لوگ ان کا بے رحمی سے شکار کرتے ہیں۔ سندھ کے شکاری شکار کے شوق میں ایسے پرندوں کو بھی گولیوں سے گراتے ہیں جو حلال نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کھائے جاتے۔اگر ان شکاریوں کو احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں جس ملک اور جس معاشرے میں قانون اور انصاف کے شکاریوں کو شکار کا حق حاصل ہو؛ اس ملک اور اس معاشرے میں ہم اگر پرندوں کا شکار کرتے ہیں تو کون سا جرم کرتے ہیں؟ ایسی باتیں سن کر پروین شاکر کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں: ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘