سوشل میڈیا کا ایک فائدہ تو ہے کہ گھٹن کے اس ماحول میں کچھ ثانیے میسر آ جاتے ہیں کہ انسان کچھ باتوں پر محظوظ ہو جاتا ہے وگرنہ تو وہی بقول منیر نیازی’’سو سو فکراں دے پرچھاویں‘ سو سو غم جدائی دے‘‘ حافظ صدیق نے پوسٹ لگائی ہے کہ مفتی کفایت اللہ ثابت کرنے جا رہے ہیں کہ قائد اعظم سکندر اعظم کے کزن تھے۔ یقینا اس کے پیچھے وکی لیکس والے وکی والی بات ہے جسے جمائما کا کزن ثابت کیا گیا تھا۔ پتہ نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنی داستان‘تاہم لطف اٹھانے کے لئے کچھ نہ کچھ میسر آ جاتا ہے۔ وہی جو ثمینہ راجہ نے کہا تھا: شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ ہی سہی مجھے اعظم کی مناسبت سے ایک دوست عباس بھی یاد آ گیا جس نے قائد اعظم کے ساتھ عادِاعظم کا ذکر کیا کہ اس سے قائد اعظم کا مضمون تو یاد ہو جاتا ہے عاد اعظم نہیں نکلتا۔ یہ عاد اعظم حساب میں ہوتا ہے اور ہمیں تو حساب کبھی نہیں آیا۔ چلتے چلتے مجھے لفظوں کی مناسبت سے ایک اور شاعر کی بات یاد آ گئی جو صاحب دیوان بھی تھا مگر نہ جانے اسے کیا مغالطہ ہوا کہ ایک روز مجھ سے پوچھنے لگا۔’’شاہ صاحب! یہ ظہور نظر اور قیوم نظر کیا ایک ہی شاعر کے دو نام ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نظر زیدی بھی اس شاعر کا نام ہے۔ وہ مجھ سے بہت خفا ہوا کہ میں نے اس کا تمسخر اڑایا ہے مگر اس نے جو ہمارے دو اہم شاعروں کے ساتھ کر دی تھی اس کا اسے ذرا احساس نہ ہوا۔ یہ ناموں کا معاملہ ہمارے اس جیتے جاگتے دور میں بھی ہوا جب بہاولپور کے ایک طالب علم نے ایم اے کے پیپر میں جوش ملیح آبادی کے شعروں پر اے جی جوش کی تعریف کی۔ یہ ہوتا آیا ہے کہ بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے‘ اس سے مجھے اچانک اپنا ایک شعر یاد آ گیا: بحرِرجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں چلتے چلتے مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آئے کہ ایک روز بتانے لگے کہ ایک شخص نے ان کے سامنے آٹو گراف بک کی اور التجا کی کہ اس پر احمد فراز کا ایک شعر لکھ دیں۔ آپ احمد ندیم قاسمی کا بڑا پن دیکھیں کہ انہوں نے احمد فراز کا شعر اس آٹو گراف بک پر لکھ دیا۔ یہ بات قاسمی صاحب نے اس وقت بتائی جب ہم جم خانے میں احمد فراز کے ساتھ شام منا رہے تھے۔ یہ بڑے لوگ تھے۔ راولپنڈی میں ایک ایسی محفل جو منیر نیازی کے ساتھ رکھی گئی تھی احمد فراز آ کر سامعین میں بیٹھ گئے‘ اس کے باوجود کہ منیر نیازی تو ان میں سے کسی کو نہیں مانتے تھے۔ پہلے لوگوں میں کتنی وضعداری تھی۔ ناموں کے مغالطے بہرحال ادب میں بہت زیادہ رہے ہیں۔ روحی کنجاہی اور ناہید شاہد کو کتنے شاعر شاعرات سمجھ کر خط لکھتے رہے۔ تب ادبی رسالوں میں تصاویر کب چھپتی تھیں۔ زیب ناروی کراچی مشاعرہ میں گئے تو کتنے ہونہار انہیں دیکھنے آئے۔ ان کی لمبی داڑھی تھی۔ سیاست پہ لکھنے بیٹھا تو بے ادبی ہو گئی کہ میں ادب میں نکل آیا ویسے تو ان دنوں کرتار پور راہ داری کے سلسلہ میں سدھو نے آ کر بھی بار بار اشعار پڑھے اور عمران خاں اور ان کے ساتھیوں کو بہت نہال کیا۔ وہ جتنے جوش اور جذبے کے ساتھ شعروں کو سنانے بلکہ نثر کو شعر بنانے کی کوشش کرتے ہیں،اس میں شاعری کے کڑاکے نکل جاتے ہیں۔ آپ شاید کسی بحر کراں میں کہتے چلے جاتے ہیں۔ جو بھی ہے وہ قافیہ ضرور ملاتے ہیں اور سے داد بھی پاتے ہیں۔ مجھے اس قبیل کا ایک شعر امام دین گجراتی کا ضرور یاد آتا ہے جو انہوں نے حضرت علامہ اقبال کی صدارت میں پڑھا تھا: یہ ہیں ہمارے جناب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال حقہ بھی پیتے جاتے ہیں شعر بھی کہتے جاتے ہیں نال نال لطف کی بات یہ ہے کہ شعر یاد رکھنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا کہ اگر طبیعت موزوں ہے یا نہیں پھر بھی شعر کی اپنی ایک موسیقیت اور لے ہوتی ہے یا بندوبست کہ حافظے پر آ جاتا ہے۔ مگر بے وزن شعر کو یاد رکھنا تو شاید بہت ہی مشکل ہے۔ بہرحال سدھو جی پر سینکڑوں نہیں ہزاروں شعروں کا خون ہے مگر ان کا اعتماد اور زور دار انداز اور اس پر ان کی ہنسی سب کچھ چھپا لیتی ہے۔ انہوں نے اپنے بے بہا شعروں میں کشمیر پر ایک مصرع بھی نہیں کہا۔ اس سے ان کی اس حالت میں بھی احتیاط اور سمجھداری ظاہر ہوتی ہے۔ جو بھی ہے خان صاحب کے قصیدے ضرور پڑھے گئے۔ تاہم یہ اچھی بات ہے کہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے ٹوٹتے نوحوں کا تذکرہ کیا کہ اور بھارت سے توقع باندھنے کی کوشش کی کہ وہ بھی خیر سگالی دکھائے۔ معزز قارئین! یونہی ایک پوسٹ نے مجھے ہلکی پھلکی باتیں کرنے پر آمادہ کر دیا۔ ویسے تو ہنسنے ہنسانے کا مواد بہت دستیاب ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ مشیر خزانہ نے ٹی وی پر آ کر کہا کہ کراچی منڈی میں ٹماٹر 17روپے کلو ہیں۔ یہ سن کر عوام کے چہرے سرخی سے لال ٹماٹر جیسے ہو گئے کہ یہ کیا بھونڈا مذاق ہے۔ سارا پاکستان دہائی دے رہا ہے کہ ٹماٹر مرغی سے مہنگا ہو گیا۔ خود کراچی کے دکاندار کہہ رہے ہیں کہ وہ اڑھائی سو روپے کلو لا کر تین سو روپے کلو بیچ رہے ہیں۔ ادرک بھی چار سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اس مہنگائی میں جب غریبوں کی بے بسی نظر آتی ہے تو ساری مسکراہٹیں دم توڑ جاتی ہیں۔ خواتین کو سنیں تو وہ کہتی ہیں کہ ٹماٹر تو ہنڈیا میں ڈلے گا۔ اب کیا کریں وزیر اعظم بھی درست فرما رہے ہیں کہ ان کا کام قوم کو مقروض کرنے والوں کو چھوڑنا نہیں۔ کرپٹ مافیا کو انہوں نے شکست دینی ہے اور ملک کی صلاحیتیں بڑھانی ہیں۔ مگر عوامی سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ ان کو کس ناکردہ گناہ کی سزا دی جا رہی ہے کہ مہنگائی انہیں کمر سیدھا نہیں کرنے دے رہی۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ کچھ ایسا بھی ہے کہ جو منصوبے تکمیل ہونا تھے ان پر اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جو منصوبے مکمل ہوئے وہ ثمر بار نہیں ہو رہے۔ کسی کو بھی وزیر اعظم کے خلوص دیانتداری اور حب الوطنی پر شک نہیں مگر نتائج اگر نہیں مل رہے تو سوچنا ضرور چاہیے کہ فواد چودھری اور شیخ رشید کی باتوں سے کام رواں ہونے کے نہیں۔ محسن نقوی نے کسی ایسے ہی لمحے میں کہا ہو گا: ہر وقت کا ہنسنا تمہیں برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر جو بھی ہے بہت عرصہ بعد فردوس عاشق اعوان نے ایک بہت ہی اچھی بات کہی کہ ڈاکٹرز سیاستدان نہیں‘ ان پر یقین کر لینا چاہیے۔ محترمہ کی سمجھ میں یہ بات اس وقت آئی جب عدلیہ نے دوبارہ ان کی معافی مسترد کر دی ہے اور رپورٹس کو جعلی قرار دینے پر غلام سرور صاحب کو بھی طلب کر لیا ہے۔ویسے اگر سیاستدان ڈاکٹر ہوتے تو فواد چودھری کی طرح بیان نہ دیتے کہ وہ نواز شریف کی جگہ ہوتے تو مرنے کو ترجیح دیتے۔ ویسے سیاستدان کے پاس تو کئی ایسے مواقع آتے ہیں کہ یہی اقدام راست نظر آتا ہے۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے‘ اپنا خیال رکھیے گا۔