سرائیکی وسیب کے جاگیردار ہمیشہ اسمبلیوں میں رہے مگر وہ اسمبلی میں بات نہیں کرتے اس کی ایک وجہ موروثی سیاست بھی ہے ،نسل درنسل سیاست میں آنیوالے جاگیرداوں کی اولادوں نے کبھی سیاسی تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی انہیں بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے ۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے بات ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے بات ہوتی ہے ’’ رہنماؤں ‘‘ کے جم غفیر میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے ، اس شخص کا نام رانا محبوب اختر ہے۔ مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 2008 ء کے الیکشن میں حصہ لیا،مظفر گڑھ لاڑکانہ بنا ، پی پی کے تمام امیدوار کامیاب ہوئے ماسوا رانا محبوب اختر۔ ان کی یقینی کامیابی کو کسی اور نے نہیں پیپلز پارٹی مظفر گڑھ کے جاگیرداروں نے شکست میں تبدیل کرایا۔ رانا صاحب کے گیلانی صاحب سے گہرے مراسم تھے ‘پی پی نے اقتدار سنبھالا ، گیلانی صاحب نے دوستوں کو فراموش کر کے اجاداروں کو اپنا بنا لیا ۔ دل برداشتہ ہو کر ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی رانا محبوب اختر نے پی پی چھوڑ دی اور جمشید دستی کے ساتھ ملکر عوامی راج پارٹی بنائی ۔ جمشید دستی مرکزی چیئرمین اور وہ جنرل سیکرٹری ٹھہرے۔ مزاج نہ ملے اور رانا محبوب اختر گوشہ نشین ہو گئے ۔ ’’ مونجھے مونجھے ‘‘ رہنے لگے ۔ سئیں کیا دی ’’ مونجھ ‘‘ اے ؟ پوچھنے پر بتاتے ، سئیں ! سیاست چھوڑ دی میں نے ، عجب بات ہے لوگ شرافت چھوڑ رہے ہیں ، آپ سیاست۔ میری بات پر رانا صاحب نے بتایا پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا ۔ کیا کر رہے ہیں ؟ سرائیکی شاعری پڑھ رہا ہوں ، میرے پوچھنے پر ان کا جواب تھا ۔ میں سمجھا کہ رانا صاحب ایسے ہی بات کر دی ‘ مگر حاصل مطالعہ کی شکل میں ان کی کتاب ’’ مونجھ سے مزاحمت ‘‘ تک آئی تو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ کتاب اپنی جگہ رہی ، کتاب کا مقدمہ بھی ایک مکمل کتاب ہے ۔ مزاحمت کے بارے تو سب جانتے ہیں مگر دوسری زبانیں بولنے والے مونجھ کے بارے میں نہیں جانتے ۔ مکمل وضاحت ہم بھی نہیں دے سکے کہ مونجھ کا مترادف اردو لغت کے پاس نہیں البتہ رانا صاحب نے ایک وضاحت دی ہے جو پیش کرنے سے پہلے ان کے ایک تاریخی جملہ بتانا چاہتا ہوں ، وہ کہتے ہیں کہ ’’ مونجھ مزاحمت کی خفیہ ایجنسی ہے۔‘‘ رانا محبوب اختر اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں : ’’ مُونجھ سرائیکی کا نرالہ لفظ ہے۔ انگریزی کا قریب ترین لفظ melancholy اور فرانسیسی میں melancholie ہے۔ مُونجھ کی گھمبیر تا، تاہم افسردہ دلی سے ماسوا ہے۔ پرتگالی زبان میں saudade بے کل اُداسی کو کہتے ہیں جو مُونجھ کے قریب تر ہے۔ مُونجھ وطن کی یاد ہے۔ بچھڑنے والوں کا غم ہے۔ ماضی کا رومان ہے۔ محبوب سے ملنے کی آس ہے۔ یاد رکھنے اور بھول جانے کے درمیان کوئی برزخ ہے۔ بے بسیط کائنات میں تنہائی کا احساس ہے۔ زندگی کا درد جو درماں کی تلاش میں ہے۔ بے بسیط کائنات میں انسان کی تنہائی کا احساس ہے۔ مُونجھ جینے کی خواہش ہے اور مستقبل کی اُمید سے وابستہ وہ بے چینی ہے جو بہتر کل کے خواب بُنتی ہے۔ مُونجھ سرائیکی آدمی کا kitsch ہے ۔ ہم مُونجھ سے مرتے ہیں تو کبھی مُونجھ کیلئے مرتے ہیں۔‘‘ یہ کتاب بھی سرائیکی شاعری کے حوالے سے ہے مگر اس کا حوالہ مزاحمتی شاعری ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے معروف نقاد ڈاکٹر طاہر تونسوی کی کتاب مزاحمتی سرائیکی شاعری کے حوالے سے شائع ہوئی ۔ مگر وہ کتاب ایک مقالے کی شکل میں ہے جو اکادمی ادبیات کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ جبکہ ’’ مونجھ سے مزاحمت تک ‘‘ شعراء کرام کے تعارف کے ساتھ ایک مکمل کتاب ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سرائیکی تو بہت میٹھی زبان ہے ،اس میں کڑوا پن اور مزاحمت کیسے آ گئی ۔ میں کہتا ہوں کہ جب آپ وسیب کے لوگوں کو کڑوا پانی پلائیں گے تو کیا لہجے میں کڑوا پن نہیں آئے گا؟ اور وہ خطہ جو دنیا کی قدیم تہذیب کا وارث اور امین ہے اور سات دریاؤں کی سرزمین ہے اور جہاں نہ صرف یہ کہ علم و دانش اور صنعت و حرفت پیدا ہوئی بلکہ جہاں انسان نے اپنے دو پاؤں پر چلنا سیکھا ، اسے دارااول و سکندر سے لیکر رنجیت سنگھ و انگریز سامراج تک ہر حملہ آور نیست و نابود کرے گا تو کیا وسیب کا بندہ ’’ مونجھا ‘‘ نہیں ہوگا اور کیا اس مونجھ سے مزاحمت پیدا نہیں ہوگی؟ ’ ’ مونجھ سے مزاحمت تک ‘‘ اردو زبان میں لکھی گئی ہے لیکن یہ کتاب سرائیکی شاعری کے بارے میں ہے۔ کتاب کے نام کاایک مصرعہ ’’ مونجھ ‘‘ سرائیکی اور ’’ مزاحمت ‘‘ اردو ہے ۔ نام ہی کافی ہے کے مصداق کتاب کا نام دیکھ کر کتاب کا موضوع اور اس کے اندر کی کہانی سمجھ آ جاتی ہے ۔ کتاب میں معروف سرائیکی شعراء احمد خان طارق ‘ اقبال سوکڑی ‘ اسلم جاوید ‘ اشو لال ‘ اصغر گورمانی ‘ جہانگیر مخلص‘ سعید اختر سیال ‘ شاکر شجاع آبادی‘ شمیم عارف قریشی ‘ عاشق بزدار ‘ عزیز شاہد اور رفعت عباس کی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ کتاب میں شاعر کا مختصر تعارف ، شاعری پر تبصرہ اور نمونہ کلام شامل ہے ۔کتاب میں لیجنڈ آف سرائیکی میوزک محترمہ ثریا ملتانیکر کے بارے میں بھی ایک مضمون شامل ہے۔ یہ کتاب صرف شاعری کا تذکرہ نہیں بلکہ وسیب کی ادبی ‘ ثقافتی ‘ جغرافیائی ‘ تہذیبی و مزاحمتی تاریخ کا حوالہ بھی ہے ۔ معروف شاعر شاکر شجاع آبادی نے درست کہا ہے کہ رانا صاحب کے دل میں اپنی ماں بولی سے محبت کا جذبہ اور شعری ذوق نہ ہوتا تو اتنی اہم کتاب نہ آ سکتی تھی ۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بہت جلد اس کا دوسرا ایڈیشن آ رہا ہے۔ شہکار تخلیق کبھی سامنے نہ آ سکتی اگر رانا محبوب اختر سیاسی میدان میں ہوتے ۔ تو اس لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ سید یوسف رضا گیلانی ‘ ملک نور ربانی کھر ‘ جمشید دستی ! آپ کی بے وفائی کا شکریہ ، اگر آپ ایسا نہ کرتے تو رانا محبوب اختر سرائیکی کو اتنا وقت نہ دیتے ۔ ’’مونجھ سے مزاحمت تک ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق مصنف رانا محبوب اختر کے ذاتی کوائف سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف 18 اکتوبر 1956 ء کو رانا غلام محمد کے گھر محمود کوٹ ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ایم اے انگریزی اور ایل ایل بی کے بعد سی ایس ایس کیا ، افسر بنے مگر افسری میں بھی درویشی نہ گئی۔ اب بھی وہ ماشا ء اللہ صاحب حیثیت ہیں۔ ملک کے نامور سیاستدان ان سے ملاقات اور مشاورت کرتے ہیں مگر ان کی قلبی تسکین کا باعث شعری نشستیں اور غریبوں سے دوستی ہے ،شاید یہی بات ان کی بڑائی کا باعث ہے اور قدرت ان سے ’’ مونجھ سے مزاحمت تک ‘‘ جیسے بڑے کام لے رہی ہے۔