کالم لکھنے کے لیے بیٹھی ہوں مگر ذہن میں کوئی خاص موضوع نہیں۔ ایک گہری نامعلوم سی اداسی کی دھند میرے اندر باہر چھائی ہوئی ہے۔ کوئی اداسی کو کیسے صفحے پر اتار سکتا ہے‘ اداسی تو بس محسوس ہوتی ہے‘ اندر تک‘ دور تک۔ کالم لکھنے کے لیے مگر کوئی موضوع درکار ہوتا ہے اور میرے پاس آج کوئی موضوع نہیں۔ سیاست کی چالبازیاں یا سماج میں بکھری ہوئی بدصورتیاں‘ آج لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس آج لکھنے کو کوئی موضوع نہیں۔ کوئی بات نہیں جو میں اپنے قارئین سے کرنا چاہوں۔ یا پھر ایسا ہے کہ بہت سی ان کہی باتوں کا ایک ہجوم ہے اور میں اس ہجوم میں کھو سی گئی ہوں۔ چھ باتیں ہمیشہ ان کہی رہ جاتی ہے۔ ایک عام فرد کی زندگی میں بھی اور اخبار کے ایک کالم نگار کی زندگی میں بھی بہت سی باتیں جنہیں وہ کہنا چاہتا ہے مگر خوف فساد خلق سے کہہ نہیں پاتا۔ بہت سی سوچیں ایسی ہیں جن کے اظہار پر ان کہی پابندیاں ہیں۔ بہت سے سوال ایسے ہیں جو پوچھے نہیں جا سکتے، اس لیے کہ دستور زباں بندی۔ ہمارے سماج کی پرانی روایت ہے۔ بہت سے سچ ایسے ہیں جو کبھی بولے نہیں جا سکتے۔ سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچ دا اے۔ کیسا سچا مصرعہ کہا تھا کسی نے۔ بہت سی لکھی ہوئی تحریریں ایسی ہی ہیں، جو کبھی اخبار کی طشتری میں سجائی نہیں جا سکیں‘ اس لیے نہیں کہ وہ خام تھیں۔ بلکہ اس لیے کہ اس سماج کے ٹھیکیدار ابھی اتنے پختہ مزاج نہیں ہوئے کہ سچ سننے کا حوصلہ رکھیں۔ یہاں قدم قدم پر ہمیں خدا مزاج لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاشرے کے وہ خدا جو آپ کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں جو آپ کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں، جو آپ کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو زندگی اور موت کا فیصلہ بھی بظاہر یہی زمینی خدا کر رہے ہوتے ہیں مگر ہم سوال پوچھنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ سوال اٹھانا بھی سچ بولنے کی طرح ایک مشکل اور ناپسندیدہ امر ہے۔ یہاں فیصلے سنائے جاتے ہیں اور ان فیصلوں پر آپ کو اپنی عمریں گزارنی پڑتی ہیں: کیوں دائروں میں ہم نے بسر کی تمام عمر یہ کس کا عہد تھا جو نبھانا پڑا مجھے وہ شام ہجر تھی کہ کسی جبر کی ہوا اس شام سب دیوں کو بجھانا پڑا مجھے جہاں ان بسے کہے جبر کا راج ہو‘ وہاں آپ سچ نہیں بول سکتے۔ پورا معاشرہ جھوٹ پر کھڑا ہے اور جھوٹ ‘ ملمع سازی اور خوشامد پر پروان چڑھتا ہے۔ سو تھوڑا تھوڑا جھوٹ ملالے اپنی سچی باتوں میں۔ نجیب احمد میرے عہد میں ایک درویش صفت‘ باکمال شاعر‘ ستائش اور شہرت کی تمنائوں سے دور کاغذ کی سچی خانقاہ میں بیٹھا ہوا دانشور‘ جھوٹ کو پھلتے پھولتے‘ بڑھتے اور ترقی کرتے دیکھتا ہے تو اس طرح اس معاشرے کا نوحہ لکھتا ہے: ذرا سا جھوٹ ہو شامل تو سونا نت نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے سو نت نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے تو ضروری ہے کہ جھوٹ بولیں‘ جھوٹ لکھیں‘ جھوٹ پھیلائیں جو سچ ہے وہ پیرایہ اظہار میں نہیں آتا۔ جو خبر ہے وہ کسی اخبار میں نہیں آتی۔ کالموں‘ تبصروں‘ تجزیوں کے ہنگام میں کتنا سچ ہے بولا جارہا ہے؟ ہاں اتنا ہی سچ جو طاقتور کی سماعتوں کو گراں نہ گزرے۔ بس سب جھوٹ کی۔ ہم اپنے باہمی رشتوں میں بھی سچ کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتوں میں ساری عمر بتا کر بس وہ ایک سچ نہیں بول پاتے۔ باتوں بھری شام میں بس اک وہی بات رہ جاتی ہے جو آپ کے اندر کا پورا سچ ہو: ہم نے اس شام کتنی باتیں کیں پر وہ اک بات جو بتانی ہے سمجھوتے رشتوں کو بچاتے ہیں مگر یہ سمجھوتہ کسی نہ کسی سچ سے گریز ہی تو ہوتا ہے۔ زہرہ نگاہ کی نظم یاد آئی ہے: ملائم گرم سمجھوتے کی چادر یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں کہیں یہ جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے کتنا بڑا تضاد ہے اور اتنا ہی بڑا پراڈوکس۔فرد کی انفرادی زندگی سے لے کر قوموں کی اجتماعی زندگیوں تک ان گنت سمجھوتے‘ خوفناک تضاد‘ بے شمار پراڈوکس اور ہم اپنی زندگی کا زرو گوہر‘ اسی راہ میں لٹاتے چلے آتے ہیں۔ ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کس کے لکھے ہئے سکرپٹ پر اداکاری کر رہے ہیں۔ یہ دنیا طاقت ور کی دنیا ہے، گھر اور فرد کی اکائی سے لے کر عالمی منظر نامے تک وہی ہوتا ہے جو طاقتور چاہتا ہے جو طاقتور ہے اس سے سوال کرنا یہاں خوف فساد خلق کے زمرے میں آتا ہے۔ آج صرف صفحات کالے کئے ہیں۔ کالم میں کوئی خاص بات نہیں‘ صرف ایک ہی المیے کا ذکر ہے جو فرد کی زندگی سے لے کر قوموں کی اجتماعی زندگیوں تک پھیلا ہوا ہے: ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی ‘بات نہیں سنی گئی (جون ایلیا)