جسٹس ثاقب نثار اب سابق چیف جسٹس ہوچکے۔ ان کا دور منصفی کئی اعتبار سے ہنگامہ پرور رہا۔اس دوران ایک وزیر اعظم اپنے ہی دور حکومت میںسابق اور نااہل و سزایافتہ ہوئے۔ ایک سابق صدر اور ان کے رفقا کے خلاف جے آئی ٹی بنی۔ابھی اس کا ہنگام اپنے عروج پہ ہی تھا کہ وقت رخصت آن پہنچا۔اب ان مقدمات کا فیصلہ نئے چیف جسٹس محترم آصف کھوسہ کی سربراہی میں ہوگا۔جسٹس افتخار چوہدری نے کئی تحفظات کے باوجود سو موٹو کے حوالے سے جس عدالتی فعالیت کا آغاز کیا تھا، دیکھا جائے تو جسٹس ثاقب نثار اسی کا تسلسل ثابت ہوئے۔ میں نے عدالتی فعالیت کے حق آئین پہ صاد کرتے ہوئے کئی کالم لکھے۔ایک کالم میں میں نے امریکی تاریخ کے طویل ترین عرصہ چونتیس سال تک چیف جسٹس کے عہدے پہ فائز رہنے والے جسٹس جان مارشل کا تذکرہ کیا جنہوں نے امریکہ کی عدالت عظمی کو پارلیمان اور دیگر اداروں کے متوازی ایک فعال اور موثر ادارہ بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا ۔ان کے کئی فیصلے قبول عامہ سے بھی متصادم رہے اور نظریہ ضرورت کو بھی منہ چڑاتے رہے لیکن امریکی آئین کی صورت گری میں اہمیت کے حامل ہوئے۔ ان کے دبنگ فیصلوں نے وفاق اور ریاستوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکی تاریخ دان اور مصنف آرتھر سلیزنگر جونئیر نے 1947ئمیں جسٹس مارشل کے اسی طرز عمل کے لئے سب سے پہلے لفظ عدالتی فعالیت استعمال کیا جو بعد ازاں مقبول ہوگیا۔ آج آئین پاکستان میں عدالتی اختیارات سے متعلق شقیں176 سے 190 تک موجود ہیں جن میں شق 187/3 سوموٹو سے متعلق ہے جو اکثر عدالتی فعالیت کے حوالے سے زیر بحث رہتی ہے۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ پشاور رجسٹری کے تین رکنی بنچ سے جسٹس ثاقب نثار کے جسٹس فائز عیسیٰ کو علیحدہ کرنے کے فیصلے نے ایک بار پھر آئین کی اس شق کے تحت عدالتی اختیارات کے تعین کی بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد فاضل سابق چیف جسٹس نے اعتراف کیا تھا کہ آئین میں سقم موجود ہے اور عدالتی اختیارات کی حدود ہونے چاہییں۔چیف صاحب درست فرماتے تھے۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین اور ان کے رہنما آئین میں سقم ہمیشہ ہی موجود ہوتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار تاریخ کے حوالے ہوئے جہاں جسٹس کارنیلیس سرخرو ہیں اور جسٹس منیر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔اصل بات نو مامور شدہ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے خطاب میں کہی ہے اور اس میں سوچنے کا بہت کچھ مواد موجود ہے۔انہوں نے کچھ ایسے اصولی مباحث چھیڑ دیئے ہیں جن پہ ان معاشروں پہ بحث کی جاتی ہے جو خود کو دنیا میں کسی مقام پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پہ یہ کہ اداروں کی حدودکیا ہیں اور کب یہ ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرنے لگتے ہیں۔صرف اسی نکتے کو دیکھا جائے تو عدالتی فعالیت کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے اور شق 187/3 بے معنی ہوجاتی ہے جس کے بہت کم استعمال کا عندیہ محترم چیف جسٹس نے دیا ہے۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آئین ساز ادارہ یعنی مقننہ اس شق کو ختم نہیں کرے گی تاکہ اداروں کے سر پہ تلوار نہ سہی کوئی چھوٹا موٹا پھندہ ہی لٹکتا رہے۔دوسرا یہ کہ ریاستی ادارے یعنی مقننہ،انتظامیہ،عدلیہ اور فوج اور ہاں میڈیا، اپنی ذمہ داریاں اس حسن سے انجام دیں گے کہ اس کی نوبت ہی کم آئے گی۔اگر ایسا ہوتا آیا ہوتا اور ہوا کرتا تو رونا کس بات کا تھا۔انہوںنے میثاق حکمرانی کی بات کی جو میرے دل کو لگی اس لئے کہ ہر شے کے وجود کا ایک مقصد ہوتا ہے اگر وہ مقصد پورا نہ ہو تو وہ شے بے کار ہوجاتی ہے۔آئین پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 3، 9،11، 14، 19(الف)،24،25،25(الف)اور سب سے بڑھ کر آرٹیکل 37 اور 38 پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور یہی ان کامقصد ہے۔ اگر یہ مقصد پورا نہیں ہورہا تو یہ ہوں یا نہ ہوں کیا فرق پڑتا ہے۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کی بات کی اور مضحکہ اڑانے والوں نے ان کا مضحکہ اڑایا کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں؟حکم الہیہ پہ قائم ریاست مدینہ کا بنیادی اصول ہی انصاف تھا۔خلیفہ وقت خطاب کے لئے کھڑا ہوتا تھا تو ریاست کا شہری کہتا تھا ہم تمہاری ایک نہیں سنیں گے جب تک اس کرتے کا حساب نہیں دوگے۔تاریخ میں امیر المومنین سیدنا عمرؓ خطاب کا ذکر تو تاقیامت باقی رہے گا، اس سوال کرنے والے کا بھی ساتھ ہی لیا جاتا رہے گا جس نے بلاجھجھک حساب مانگا۔سیدنا علی مرتضیٰؓ امیر المومنین ہوتے ہوئے ایک مقدمے میں کٹہرے میں کھڑے ہوئے۔انسانی تاریخ میں ایسے انصاف کی کونسی مثال ہوگی؟یہاں احتساب کی بات کی جائے تو پاکستان کی فیڈریشن خطرے میں پڑ جاتی ہے گویا ساری ریاست چند لوگوں کی کرپشن پہ کھڑی تھی۔ ریاست بچانی ہے تو نظریہ ضرورت کے تحت انہیں ہاتھ نہ لگایا جائے ورنہ اٹھارویں ترمیم کا اکا بھی ان ہی باون پتوں میں موجود ہے۔ صوبائی خودمختاری اتنی اہم شے ہے کہ وفاق یہ سوال کرنے کا حق بھی کھو دیتا ہے کہ صوبے کے اسپتال کا م کیوں نہیں کررہے ۔میثاق حکمرانی کا تقاضہ ان سے کرناجن کے لئے میثاق جمہوریت سب سے بڑا کریڈٹ ہے، منصف اعلیٰ کا ہی اختیار ہے اور وہ کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔اس کام کا آغاز تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت نے کیا تھا جس میں گڈ گورننس کو ایک میثاق کے طور پہ اپنایا گیا تھا اور حکومتی اداروں بشمول بلدیاتی اداروں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری اقدامات پہ زور دیاگیا تھا اور کچھ عملی کام بھی کیا گیا تھا۔ آئین ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک میثاق ہی تو ہے جو ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے، جیسے میثاق جمہوریت اور این آر او دو طرفہ تھے۔کیا ریاست شہریوں کے ساتھ ان کے تحفظ ، انصاف خوش حالی اور تعلیم جیسے میثاق کو پورا کررہی ہے ؟کیا اداروں کی کشمکش محض طاقت کے حصول کے لئے ہے؟کیا احتساب کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے؟کیا اس سے ریاست کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے؟یہ وہ ضمنی سوالات ہیں جن پہ بہت پہلے بحث ہوجانی چاہیے تھی اور ہمیں کسی نتیجے پہ پہنچ کر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے متعین مقصد کی طرف رواں دواں ہوجانا چاہئے تھا اور شاید ہوئی بھی ہوں تبھی تو آئین پاکستان شقوں سے بھر گیا لیکن کہیں نیت میں خرابی تھی جو آسمان تک اٹھتی دیوار کج ہے۔کیا میں بتائوں کہ وہ خرابی کیا تھی؟ریاست پاکستان کے سب سے بڑے ستون مقننہ کے ماتھے پہ لکھا کلمہ ،دستور میں نگینے کی طرح جڑی قراداد مقاصد جس کی رو سے کوئی قانون خلاف شریعت نہیں بنایا جاسکتا اور اقتدار اعلی اللہ کی ذات کو حاصل ہے اس کے باوجود حصول اقتدار کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے نہ شریعت کی بالادستی ۔جب بنیادی مقصد ہی مقصد پورا کرنا نہیں ہے تو کوئی بھی شے جلد یا بدیر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔