یہ سیاست دانوں کی خوش بختی ہے کہ عوام کی جانب سے،اُنہیں کبھی اور کسی بڑے امتحان میں نہیں ڈالا گیا۔البتہ ہر دَور میں حکمران خود اور عوام کوامتحانات میں ڈالتے چلے آئے ہیں ۔سیاسی حکمرانوں نے اپنے عمل سے بارہا عوام کے حوصلے کا امتحان بھی لیاہے اورنئے تنازعہ میں اُلجھایا بھی ہے۔ا س ملک یا عوام پر جس قدر بحران نازل کیے گئے وہ سارے کے سارے حکمرانوں کی کج فہم عمل کا نتیجہ ہی تو تھے۔عوام نے اگر کسی حکمران کی غلطی کا ردِ عمل دیا بھی تو محض علامتی نوعیت کے احتجاج کی صورت ۔ا س پہلو سے بھی انکار نہیں کیا جاتا کہ سیاسی حکمرانوں نے اپنے مفاد اور مقاصد کے لیے عوام سے بھرپور احتجاج بھی کروایا اور احتجاج کے دوران کئی مواقعوں پر ملکی املاک کو نقصان بھی پہنچوایا۔حکمرانوں کا کام عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے،اُن کی زندگیوں کے معیار کو بلند کرنا ہوتا ہے۔جب جب حکمرانوںنے عوام سے جو جو مانگا ،عوام نے اُنہیں شرمندہ نہ کیا۔قرض اُتارو ملک سنوارو سے لے کر مولانافضل الرحمن کے دھرنے کی کال تک عوام نے حکمرانوں کی لاج رکھی۔ بدلے میں عوام کو کیا ملا؟لیکن اب معاملہ اس سے بھی سِوا ہے،معاملہ یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے،وہ قوم کے جذبات کو کیونکر قابو کر پائیں گے۔اگر خدانخواستہ کچھ ایسی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کی ایک معقول تعداد مشتعل ہوجاتی ہے توکون سی ایسی بڑی جہاندیدہ اور بزرگ سیاسی شخصیت ہے جواُنہیںقابوکرپائے گی؟وہ کون ہو گا ،جواُن کے جذبات کو ٹھنڈ اکرے گا؟جہاں تک جذبات کی بات ہے تویہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔منفی اور مثبت۔منفی جذبات فرد اور معاشرے کے لیے مضر ہوتے ہیں جبکہ مثبت جذبات تعمیری سوچ اور عمل کو پروان چڑھاتے ہیں ۔اگر سیاسی حکمران بالیدہ نظر اور وسعتِ قلبی کے حامل ہوں تو وہ عوام کے منفی جذبات کو پروان نہیں چڑھنے دیتے جبکہ مثبت جذبات کو پروان چڑھانے کے نت نئے منصوبے تشکیل دیتے ہیں ۔لیکن یہاں مثبت جذبات کو رَوندا جاتا ہے جبکہ منفی جذبات کی بعض معاملات میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،ہمارے بہت سارے سیاست دان منفی جذبات کا اظہار کھلم کھلا کرتے ہیں اور اس پر اِتراتے بھی ہیں ،جس کی تازہ مثال فیصل ووڈا کا عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاست میں بات گالم گلوچ سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں نہیں اُچھالتے ، تہذیبی اقدار کی دھجیاں بھی بکھیرتے ہیں۔بدمعاش،غنڈے،چالاکو ماسی،ٹریکٹر ٹرالی،ذہنی مریض،ریلو کٹے،پھٹیچر،ماسی مصیبتے،چور،گیلی شلوار،اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا،مولوی ڈیزل،چادر کا مذاق،سڑکوں پر گھسیٹوں گا،گھر میں گھس کر باہر کھینچ کر سرعام پھانسیاں دیں گے،جس کے بال نہیں گرتے، حرام کی گھٹی ،حرام کی چُوری…یہ سب الفاظ وہ ہیں جو دوہزار تیرہ کے الیکشن سے دوہزار اٹَھارہ کے الیکشن کے دوران سیاست دانوں نے ایک دوسرے کی طر ف اُچھالے ہیں۔ہر لفظ کی ایک ثقافت ہوتی ہے ۔لیکن اس کا ادراک سیاست دانوں کو شاید نہیں ۔بدمعاش کا لفظ محض لفظ نہیں ،چور کا لفظ محض چور نہیں بلکہ پوری ثقافت کا مظہر ہے۔سیاست دان اپنے ہم منصبوں اور ہم رفیقوں کے لیے شرمناک الفاظ کیوں استعمال کرتے ہیں ؟اس کی ممکنہ طور پر کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں ۔دوسروں کے لیے ان الفاظ کا استعمال خود کو سپیریئر سمجھنا ہوتا ہے۔یہ روّیہ نرگسیت کا حامل ہے۔نرگسیت پسند شخص خود کو ارفع اور دوسروں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح حقیر گردانتا ہے ۔تحقیر آمیز روّیے معاشرے اور نظام ِ اقدار کی مجموعی صورتِ حال کو بھی پیش کرتے ہیں ۔وہ اس بات کا اظہار ہوتے ہیں کہ معاشرہ کس ڈھب کا حامل ہے ۔لیکن ایسے روّیوں کا حامل اگر ایک عام فرد ہو تو معاشرہ زیادہ متاثر نہیں ہوتا،ایک عام فرد کی جگہ ،کوئی سیاست دان ہو تو معاشرہ بے حد متاثر ہوتا ہے ۔ سیاست دان جب زہر آلود اور نفرت انگیز الفاظ اور وہ الفاظ جن کی تہذیب اجازت نہیں دیتی دوسروں کے لیے استعمال کررہے ہوتے ہیں تو وہ اُ ن کی عزت کی پگڑیاں ہی نہیں اُچھال رہے ہوتے سماجی و تہذیبی اقدار کی دھجیاں بھی بکھیر رہے ہوتے ہیں ۔تہذیبی اقدار ہی کی بدولت سماج آگے بڑھتا ہے ،وہ جمود کا شکا بھی نہیں ہوتا۔لیکن یہاں ایسی باتوں کو کتابی کہہ کر رَد کر دینے کا چلن عام ہے۔سیاست دا ن آپسی لڑائیوں اور جھگڑوں میں پڑ کر محض اپنا ہی نقصان نہیں کررہے ہوتے سماج کا بھی نقصان کر تے ہیں ۔ اگرچہ سیاست میں نام بگاڑنے اور گالم گلوچ کا معاملہ، آج کی بات نہیں۔ملکی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بداخلاقی کاقصہ پرانا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر اُٹھا کر دیکھ لیں ،قبل از مادرِ ملت کی سیاسی جدوجہد کو دیکھ لیں کہ کیسے مخالفین اُن کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے تھے۔پھراَسی کی دہائی کی سیاست کو سامنے رکھیں اور بعدازاں اَٹھاسی سے دوبارہ جب جمہوری دَور کا آغاز ہو ا جو نوے کی دہائی کے آخر تک رہا ،کی سیاسی تاریخ کو دیکھ لیں ،کہانی سامنے آجائے گی۔کبھی نصرت بھٹو زیرِ عتاب آئیں تو کبھی بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی گئی ،ایک سیاسی جماعت کا اکلوتا مالک و مختار کیسے بے نظیربھٹو کے بارے پارلیمنٹ کے اندر جملے کستا رہا ،آج وہی سیاست دان بے نظیر بھٹو کے بیٹے پر ذومعنی جملے کستا ہے ۔حالیہ برسوںیعنی بحالی جمہوریت کے تیسرے دور میں اس طرح کے اندازِ سیاست کو بہت تقویت ملی ہے ۔دوہزار تیرہ کے الیکشن کی انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر طنز اور نفرت کے خوب تیر برسائے گئے،سڑکوں پر گھسٹیں گے،چور ڈاکو وغیرہ کے نعرے بھی لگائے گئے۔پھر دوہزار چودہ کا دھرنا آگیا ،رہی سہی کسر اس میں نکل گئی ۔ بعد کی شدید ہیجانی کیفیت دھاندلی کے نعرے سے اُٹھی۔معاملہ یہاں تک رُکا نہیں ۔پاناما گیٹ نے رہی سہی کسر ہی نکال دی۔اس عرصہ میں ایسے ایسے جہاندیدہ سیاست دانوں کے منہ سے ایسے تحقیر آمیز الفاظ اور جملے سنے گئے کہ جن کی اُن سے توقعات نہیں کی جاسکتی۔اب تو خطرہ یہ پڑگیا ہے کہ کون کس وقت جوتا نکال کر سامنے رکھ دے۔