کس کس ادا پہ اس کی میں واروں نہ اپنا دل اس پر ہے ختم خامشی اس پر سخن تمام شبنم نے کام کر دیا جلتی پہ تیل کا دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام رئیس المتغزلین حسرت موہانی کے طرح مصرع پر میں نے گرہ لگائی تو میرے پیارے دوست اسلم کولسری بے اختیار گویا ہوئے’’کون لگائے گا اس سے بہتر گرہ‘‘ شاید یہی تو حسرت کے مصرع تر کا کمال تھا۔ بات میں نے شبنم اور پھول کی کرنا تھی کہ اس کی پنکھڑیوں پر اوس کے قطرے موتیوں کی طرح جگمگاتے ہیں۔ کولرج نے تو اور بھی خوب بات نکالی تھی کہ اصل میں یہ قطرے رات کے آنسو ہوتے ہیں جو صبح کے وقت موتی بن جاتے ہیں گویا گریہ ثمر بار ہوتا ہے تو قیمتی ہو جاتا ہے۔ بات شروع ہو جائے تو سنبھلتی نہیں۔ پھول کی خوشبو کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر کس کس کو بہریاب کرتی ہے۔تبھی تو سعدی نے مٹی کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس میں خوشبو سما گئی تھی ان پھولوں کی جس کی محبت میں وہ رہی تھی ۔شعر یاد آ گیا: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں ویسے پھول اور کانٹے میں کیسا اشتراک اور کیسا تضاد ہے مگر ہر حوالے سے حسن و جمال میں مرغزار کے خدیجتہ الکبرا پارک کے اردگرد محو خرام تھا اور اس کے اردگرد گلاب کے پودوں کی طرف یکسو تھا کہ جن کی ٹہنیوں نے بہتات میں سرخ گلاب اٹھائے ہیں۔ پھر یکایک مجھے ان پھولوں سے محبت کرنے والے کا خیال آیا وہی مرحوم ملک حنیف جو ان پھولوں کی مکمل نگرانی کرتے تھے اور اس پارک میں خواتین اپنے پھول سے بچوں کو لے کر سیر کو آتیں مردوں کا داخلہ بند تھا۔اب کے تو پھول پورے جوبن پر بھی اداس نظر آ رہے تھے کہ وبا کے باعث پارک میں داخلہ بند ہے۔ انشاء اللہ جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کالونی کے صدر چودھری محمد شہزاد چیمہ نے ملک حنیف کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ ایک قطعہ گل کا نام ان کے نام پر رکھ دیا ہے۔ آپ کبھی پھولوں کو غور سے دیکھیں کہ یہ صرف گلقند بنانے کے لئے نہیں ہوتے۔ ان پر تتلی کی گلشت بھی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ میں انیس تو نہیں ہوں کہ اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘ مگر یہ تو ہے کہ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ان کی خوشبو آپ کا راستہ روکتی ہے مجھے تو وہ عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں اور یہ بات تو ویسے بھی برحق ہے: بہار ہو کہ خزاں نہیں ہیں میرے بغیر یہ کائنات تو شاید شہود ڈھونڈتی ہے بلکہ ایک اور انداز نظر سے کچھ اور بھی کھلتا ہے: اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے میں آپ کو سچی بات بتائوں کہ جو کچھ میں آج لکھنا چاہتا تھا وہ میرے مزاج سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ آج میں شیریں گفتاری پر بات کرنا چاہتا تھا کہ آپ کسی سے بھی بات کریں تو آپ کا لہجہ پھولوں جیسا ہی ہونا چاہیے۔ لہجے میں نرمی اور بانکپن۔ آپ کا خلوص اور محبت آپ کی بات میں سمٹ آئے۔ وہی جنہیں میٹھے بول کہا جاتا ہے کہ جس سے لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے کہ خاموشی بھی کلام کرتی ہے۔ ادا جعفری یاد آئیں ،رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے۔ بات تو زاویہ و نگاہ کی ہے: کس کس ادا پہ اس کی میں واروں نہ اپنا دل اس پر ہے ختم خامشی اس پر سخن تمام دل تو نہیں چاہتا کہ میں اپنے پھولوں سے بھرے کالم کو ٹاٹ کا پیوند لگائوں مگر کیا کروں مجبوری ہے کہ بات کرنا ہی پڑتی ہے۔ وہی کہ پھولوں کے ساتھ کانٹوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تو میرے پیارے معزز و محترم قارئین !بات کچھ یوں ہے کہ کل ہمارے دوست ڈاکٹر خالد جمیل نے فیاض الحسن کی ایک غیر ذمہ دارانہ بات کا محاسبہ کیا۔ ڈاکٹر خالد جمیل جنہیں بگ برادر کا خطاب ملا ہوا ہے اور وہ ایک غیر معمولی آدمی ہیں کے ای میڈیکل کالج میں آئے ہر حوالے سے ٹاپ آف دی لسٹ تھے۔ پھر ان کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ معذوری ہوئی مگر اس بہادر شخص نے معذوری کو شکست دی اور پھر معذوروں کے لئے خود کو وقف کر دیا۔ ان کی کتاب تیسرا جنم ان کی خودنوشت آئی تو اس نے ہمیں بہت رلایا۔ ایک شاہکار کتاب حوصلہ بخشنے والی۔ خیر کبھی اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔ آمدم برسر مطلب۔ انہوں نے فیض الحسن چوہان کے ایک بیان پر بہت ہی زیادہ غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ بنتا بھی تھا کہ فیض الحسن چوہان بھی بات کرتے ہوئے اکثر سوچتے سمجھتے نہیں۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ انہوں نے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر بات کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ایسے لوگوں کو قدرت سزا دیتی ہے کہ ان کے ہاں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بہت ہی تھرڈ کلاس بات تھی۔ ڈاکٹر خالد جمیل متعلقہ آدمی تھے اور وہ معذوروں کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں۔ انہوں نے درست کہا کہ اول تو یہ معذور بچے نہیں ہوتے یہ سپیشل بچے ہوتے ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے کسی گھرانے پر انعام ہوتا ہے یہ اجر کا باعث بنتے ہیں۔ یہ کسی کی بخشش کا بہانہ بنتے ہیں۔ یہ بات بھی اچھی لگی کہ فیض الحسن چوہان نے اپنے اس غیر ذمہ دارانہ اظہار پر معذرت کرلی کہ اس سے والدین کو بہت صدمہ ہوا۔ بات یہ ہے کہ آپ کیوں اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔ نرگس کے حوالے سے ان کی گفتگو بہت پرانی نہیں میں خود پلاک کی تقریب میں موجود تھا۔ پھر آپ نے نرگس سے معافی مانگی۔ بڑی معذرت کے ساتھ ان کے لئے میں انجم رومانی کے ایک شعر میں تصرف کروں گا: پہلے تول فیاض الحسن پھر بھی نہ بول فیاض الحسن بہرحال آئندہ راہ ِاحتیاط، فیاض الحسن کو چاہیے کہ وہ اپنی تقریر کی ریہرسل کر لیا کریں اور ایک دو پڑھے لکھے لوگ مشورے کے لئے رکھ لیں کہ کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں اگر آپ کی باتیں اچھی اور پھولوں جیسی ہونگی تو لوگ آپ کے گرویدہ ہو جائیں گے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ عمران خاں کی طرح آپ کے منہ سے بھی کوئی نہ کوئی شگوفہ پھوٹ جاتا ہے۔ چلیے فراز کے ایک شعر کے ساتھ بات ختم: منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا