جس قدر دنیا گذشتہ ساٹھ ستربرسوں میںبدلی ہے اتنی جلدی اور حیران کن حد تک گذشتہ ہزار برس کے دوران بھی نہیں بدلی۔ ہمارے بچوں کو جو اب خود بچوںوالے ہو چکے ہیں انھیں بھی کیسٹوں والے ٹیپ ریکارڈرز، ٹرانسسٹرز، وی سی آزر اور کھلے اور تازہ دودھ، دہی کی دکانوں کا تجر بہ نہیں ہوا۔ خواتین کا گھروں تک محدود ہونا اور نہایت ہی قلیل تعداد میں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک جانا اب صرف یاد ماضی بن چکا ہے۔ آج کل کے بچوں اور بچیوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں سکتی کہ شادی بیاہ کے فیصلے وہ نہیں بلکہ ان کے بزرگ کیا کرتے تھے۔ تہذیب کے اس دور میں متمول گھرانے کا شوہر اور باپ گھرکا نوکر ، خانساماں ، ڈرائیور ، مالی اور چوکیدار کی طرح کے مرد نہیںبلکہ وہ شخصیت تھے جس کے بغیر نا بیوی خود کو محفوظ اور عزت دارسمجھ سکتی تھی اور نہ آگے بڑھنے کے قابل۔ ماں باپ کے علاوہ دادا ،وادی ، نانا، نانی چاچے ، مامے، پھوپیاں اور خالائیں سب بچوں کو اسکول میں استادوں اور استانیوں کے حوالے کرنے سے پہلے اداروں کی طرح پرورش کرنیکے ذمہ دار ہوتے تھے۔ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے اب نفسانفسی کا عالم ہے اور گھر کا ہرفرد خودسر ہو چکا ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ بچوں کو پتہ ہی نہیں کہ ان کا بڑا کون ہے۔ دودھ پینے پر بھی ناراض ہو جائیں تو انھیں با قاعدہ طور پر منانا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے جب بڑوں نے بڑوں کو بڑا نہیں سمجھ تو چھوٹے بڑوں کو کیوں بڑا سمجھیںگے۔ ہمارا موضوع با تیں ہیں۔ منہ سے نکالے جانے والے سارے الفاظ اور جملے باتیں نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر قرآن شریف کا پڑھنا تلاوت کہلاتا ہے۔ رشتہ ازدواج کے لئے پڑھے گئے الفاظ خطبہ نکاح کہلاتے ہیں، باتیں نہیں۔ رکوع وسجود میں ادا کئے گئے جملے نماز کہلاتے ہیں، باتیں نہیں۔ عدالت میں گواہی وکیل کے دلائل اورجج کے احکامات و مشاہدات فیصلے کہلاتے ہیں، باتیں نہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت باتوں کے زمرے میں نہیں آتی اور ناہی پروفیسر ز کے لیکچرز باتوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح عید میلادالنبی کے جلوس میں نعتیں اورمحرم کے جلوس میں نو حے باتیں کہلائی نہیں جاسکتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایک واضح مقصد اور محدود دائرے میں کی گئی گفتگو اپنی سنجیدگی اور افادیت کے اعتبار سے صرف باتیں نہیں کہلائی جاسکتیں۔ چوتھے خلیفہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں تو نماز پڑھتا ہوں اور جب چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے باتیں کرے تو قرآن پڑھتا ہوں‘‘ ہم حضرت علیؓکی طرح نماز پڑھ سکتے ہیں اور نا ہی ان کی طرح قرآن۔ البتہ ممبر و محراب پروعظ ہوتے ہیں۔ ڈراموں اور فلموں کے مکا لمے باتیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کے درمیان روز مرہ کی عام گفتگو با تیں ہوتی ہیں۔ دعائیہ کلمات ، گالم گلوچ، چغل خوریاں ، الزام تراشیاں اور بہتان تر اشیاں، قصے کہانیاں محبت نفرت کے مکا لمے، کوسنے طعن، تعریف و توصیف اور لعنت ملامت باتیں ہوتی ہیں۔ اعلانات اور نعرے باتیں ہوتی ہیںجگت بازیاں اور ہنسی مذاق باتوں میں ہی ہوتا ہے یہ سب کچھ باتیں کہلاتی ہیں۔ کاروبار ہیں۔ کاروبار منافع کمانے کے لئے ہوتا ہے۔ ہاں جو باتیں منافع بخش ہوں ، وہ کاروبار بن جاتی ہیں۔ باتیں کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ شاعری کے ذریعے بھی باتیں ہوتی ہیں۔ باتیں لکھ کر بھی کی جاتی ہیں حتیٰ کہ اشاروں کنایوں میں بھی باتیں ہیں۔ باتیں اچھائی برائی کی پہچان ہوتی ہیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’ باتیں آدی کی پہچان کرادیتی ہیں‘‘ آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ’’لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کرو‘‘ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے اچھی بات کرو‘‘ اچھائی اور سچائی کاروبار نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اسلئے کہ اچھائی اور سچائی کی بات میں وزن ہوتا ہے، اچھی باتیں سماعت پر گراں نہیں گزرتیں۔جھوٹ بات چہرے سے بھی عیاں ہو جاتی ہے، کاروبار ہمارے حساب سے مالی منفعت کا حصول کہلاتا ہے۔ چاہے مال سے مال کمایا جائے ، کام سے مال کمایا۔ یا تجارت سے مال کمایا جائے یا بازار اور منڈی میں پرچون اور تھوک کی خرید وفروخت سے مال کمایا جائے وہ کاروبار کہلاتا ہے۔ اس لئے صدقہ و خیرات کو اور فلاحی کاموں کے لئے چندہ دیناڈھیر سارا مال خرچ کرنے کے باوجود کاروبارنہیں کہلاتا ،اس میں چونکہ ہماری کوئی مادی منفعت نہیں ہوتی اس لئے اس سے ہمیں ایک ایسا روحانی سکون حاصل ہوتا ہے جوکسی بھی طرح کی مادی منفعت سے حاصل نہیں ہو سکتا محبتیں اور نفرتیں باتوں کے ذریعے ہی پروان چڑھتی ہیں ،اسلئے گولہ بارود اور توپ وتفنگ کے استعمال سے پہلے باتیں یا مذاکرات ہی ناکام ہوتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کے دھوم دھڑکے ،ر قص وسرود اور رنگ و نور کی محفلیں سجنے سے پہلے باتیں ہی ہوتی ہیں ۔ ایمان بھی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے لیکن یہ سب کچھ کاروبار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اپنے پیاروں کی احوال پرسی ، اموات اور جنازوں پر اظہار افسوس بالکل بھی کاروبار نہیں کہلایا جا سکتا کہ ان کا تعلق الفاظ سے زیادہ جذبات سے ہے۔ باتوں کے بارے میں اتنی ڈھیر ساری باتیں کرنے کے بعد اس بات کا پتہ تو چل گیا ہے کہ ساری باتیں کاروباری باتیں نہیں ہوتیں پھر اس موضوع کو کیوں چنا گیا؟ اس لئے کہ اگر چہ ہر طرح کے کاروبار میں آخری تجزیے بولنے والی باتوں یا پرلکھی گئی باتوں کے ذریعے ہی ہوتے ہیں لیکن اب وہ باتیں بھی کاروباری بن گئی ہیں جنہیں کاروبار سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ جس چیز نے مجھے باتوں کے کاروبار کی طرف توجہ دلائی وہ شام سات بجے سے لے کر نصف شب تک پاکستان کے درجنوں نیوز چینلز پر بلا ناغہ نشر کئے جانے والی باتوں اور صرف باتوں سے لبریز اور بھر پور بحث مباحثوں پرمشتمل وہ پروگرام ہیں جنہوں نے لوگوں کو کچھ اس طرح سے اپنے نرغے میںلے رکھا ہے کہ انھیں اب کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ باتوں کا یہ میدان جنگ اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا ہے کہ سارے تفریحی پروگرام اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ بعض تو اپنے تئیں حکومتیں بنانے اور گرانے تک کے دعوے کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ گفتگو کے میدانوں کے ان شہسواروں کی شان و شوکت اور قابل دید عظمت تو علامہ اقبال جیسے دور بین فلسفی اور قلندر شاعر کی نظروں سے بھی اوجھل رہ گئی تھی وگرنہ وہ بھی یہ نہ فرماتے کہ اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا ،کر دار کا غازی بن نہ سکا ٭٭٭٭٭