کچھ منظر آنکھ کی پتلی پہ نقش ہوجاتے ہیں۔ لیڈی میکبتھ کے ہاتھ پہ جمے لہو کی طرح جو کسی طرح نہیں دھلتا۔نوے کی دہائی تھی۔کراچی میں آپریشن جاری تھا۔ساتھ ہی ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم حقیقی کے جانثار ایک دوسرے کے ہی نہیں تیسرے کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔رینجرز پولیس اور فوج اس کے علاوہ سرگرم تھے۔کون کس کو مار رہا تھا، کسی کو علم نہیں تھا۔بس لاشیں مل جاتی تھیں۔ کبھی ثابت و سالم۔ کبھی کٹی پھٹی ۔ہمارا گھر گو کینٹ کے ڈیری فارمز سے متصل تھا لیکن درمیان میں ایک خانہ ساز قسم کی خاکی دیوار اٹھا دی گئی تھی۔نوشتہ دیوار اتنا گنجلک تھا کہ آج تک پڑھا نہیں جاسکا۔اس دیوار کے دوسری طرف امن و تحفظ تھا اور اس طرف خون ،آگ،دھواں،بارود اور لاشیں۔ایسی ہی ایک رات تھی جب میں نے کھڑکی سے وہ منظر دیکھا۔بچپن کی یادداشت بڑھاپے تک ساتھ رہتی ہے، ابھی سے کیسے بھول جاوں۔اچانک شور کی آواز آئی۔باہر جھانکا تو چار مسلح نوجوان ایک لڑکے کو گھسیٹتے جھاڑیوں کی طرف لے جارہے تھے۔لڑکے کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔وہ منتیں کررہا تھا۔مجھے پتا تھا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ایک نے ٹی ٹی اس کی کنپٹی پہ رکھی دوسرے نے سینے پہ۔دو فائر ہوئے اور منتیں کرتا نوجوان بے جان لاشے میں تبدیل ہوگیا۔میری آنکھوں میں خون جم گیا۔اگلی صبح پتا چلا مقتول ایم کیو ایم حقیقی کے ایک رہنما کا بھتیجا تھا۔یہ نہ پہلا واقعہ تھا نہ آخری۔باقی ملک کو شاید خبر بھی نہیں تھی کہ کراچی میں ایک نسل ایسی جوان ہوئی ہے جس کے لئے زندگی،تحفظ اور امن لغت میں لکھے الفاظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کراچی میںسیاسی بازیگروں کے لئے جب جب مہرے بساط سے بڑھنے لگے اور لاشوں کی یومیہ تعداد حد سے تجاوز کرنے لگی تو آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔پہلا آپریشن بیانوے میں نواز شریف کے دور میں شروع ہوا۔یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے۔دو سال جاری اس آپریشن نے بس اتنا کیا کہ ہم اسکول جانے کے لئے کرفیو کے وقفے کا انتظار کرتے۔جیسے ہی فوج واپس گئی حالات پہلے سے بدتر ہوگئے۔بے نظیر بھٹو کا دور آیا تو جنرل نصیر اللہ بابر میدان میں آئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف ایسا آپریشن کیا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب آپریشن میں شریک پولیس والوں کو چن چن کر مارا جارہا تھا۔1990 ء سے 2017 ء تک ان آپریشنوں میں پندرہ سو سے زائد پولیس والے شہید کئے گئے۔کولیٹرل ڈیمج میں نہیں،چن چن کر۔ یہ جو رائو انوار کو زرداری بہادر بچہ کہتے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے۔نصیر اللہ بابر کی زیرنگرانی آپریشن میں شریک 54 ایس ایچ اوز میں واحد بچ رہنے والا رائو انوار ہے جس پہ نقیب اللہ سمیت 444 ماورائے عدالت قتل کا الزام ہے۔کیا ہی بہادر بچہ ہے اور کیا ہی قدردانو ں کی گود میں پلا بڑھا ہے۔مجھے ایک اور بہادر بچہ انسپکٹر ذیشان کاظمی یاد آرہا ہے۔اس کی ایسی قدر نہیں کی گئی کہ وہ تھوڑا نافرمان ہوگیا تھا۔ جاسوسی ناولوں کے دیومالائی کردار والا ذیشان کاظمی کس کو بھول سکتا ہے۔ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج جس کی جھلک دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اس نے اپنے علاقے میں نوجوانوں کو جینز پہننے پہ پابندی لگادی تو کسی میں جرات نہیں تھی کہ جینز میں ملبوس نظر آئے۔وہ آسرا ہی نہیں کرتا تھا۔اسے تمام اختیارات بہت اوپر سے حاصل تھے۔پولیس والوں کی بوری بند تشدد زدہ لاشیں مل رہی تھیں ایسے میں کیسی ایف آئی آر ۔کیسی تفتیش۔کونسا قانون۔بس ایک جعلی پولیس مقابلہ اور بات اور بندہ ختم۔گولیاں گنتے جائو لاش اٹھاتے جاو۔امن اگر طوفان سے پہلے کی خاموشی کا نام ہے تو خاموشی ہوگئی تھی اور ذیشان کاظمی اس خاموشی کا سہاگ تھا۔سہراپہنانے والوں کی آنکھ کا تارا۔وزیر داخلہ کا ہم پیالہ و ہم نوالہ۔جہاں چاہتا پوسٹنگ کروا لیتا۔ ایس پیز ڈی ایس پیز کی تعیناتی اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ماورائے عدالت قتل کیا ہوتے ہیں اس دور میں جوان ہونے والے کسی کرانچی والے سے پوچھیں وہ جواب میں ذیشان کاظمی اور بہادر علی کا نام لے گا۔سنا ہے حقیقی کے ایک رہنما نے اس پہ فائرنگ کروائی جوابا اس نے حقیقی کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی جو ایجنسیوں کے قریب سمجھی جاتی تھی۔یہ بھی شنید ہے کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کے خوف سے اسی رہنما نے اس وقت تک ذیشان کاظمی کے پائوں پکڑے رکھے جب تک اس نے جان بخشی نہ کردی۔اس بہادر بچے پہ سو سے زیادہ ماورائے عدالت قتل کے الزامات تھے اور وہ روزانہ پیشیاں بھگتتا بھی تھا لیکن سر پہ قانون سازوں کا ہاتھ تھا۔ ہر پیشی سے وہ رائو انوار کی طرح ہنستا مسکراتا باہر آجاتا۔اسے پتا تھا اس کی موت قانون کے ہاتھوں نہیں لکھی۔اور یہی ہوا۔12 اکتوبر کو 2003ء کو دہشت گردوں پہ دہشت کا کوڑا بن کر برسنے والے اس بہادر بچے کی تشدد زدہ اور گولیوں سے چھلنی لاش فیروز آباد تھانے کی ایک کچرا کنڈی سے ملی۔آپ سمجھے ہونگے وہ اپنی بدترین دشمن ایم کیو ایم کا نشانہ بنا ۔ہم بھی یہی سمجھے تھے لیکن کراچی پولیس کے سابق ایس ایس پی سی آئی ڈی فیاض خان کچھ اور کہانی سناتے ہیں ۔ ایک دل دہلادینے والی کہانی۔بہادر بچے کی بہادری حماقت کو چھونے لگی تھی اور اس نے مرتضی بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنارا پہ ہاتھ ڈال دیا تھا جو بم دھماکوں سمیت قتل کی لاتعداد وارداتوں میں مطلوب تھا اور مبینہ طورپر الذوالفقار کا سربراہ بھی تھا۔اس پہ بے نظیر اور زرداری کے قتل کی سازش کا الزام بھی تھا۔اسی اثنا میں مرتضی بھٹو ستر کلفٹن کے سامنے قتل کردیا گیا۔ اس ہائی پروفائل قتل میں بے نظیر،زرداری اور کراچی کے اہم عہدوں پہ تعینات تمام پولیس اہلکارنامزد ہوگئے جن میں ذیشان کاظمی بھی شامل تھا۔ وہ روپوش ہوگیا اور اس کا برا وقت شروع ہوگیا۔جن کی آنکھ کا وہ تارا تھا انہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ بالآخر ایک دوست اور بدنام زمانہ ڈان شعیب خان نے اسے دھوکے سے اپنے گیسٹ ہائوس بلوا کر علی سنارا کے حوالے کردیا۔بہادر بچے کی مدد کو کوئی نہ آیا۔ایسے ہی ایک بہادر بچے کا بھائی مجھے لاہور میں ملا۔وہ فیصل آباد کا ایک اہم پولیس اہلکار تھا۔اسے صوبے کی انتہائی اہم شخصیت نے کچھ لوگوں کو جعلی پولیس مقابلے میں ٹھکانے لگانے کا حکم دیا۔اس نے انکار کردیا۔بہادر بچے کی لاش اس کے اپنے ڈیرے پہ لاوارث پڑی رہی۔اس کے بھائی نے دو اہم شخصیات کے خلاف پرچہ کٹوادیا۔میں نے فیس بک پہ پوسٹ لگائی تو ایک دو نہیں بیسیوں لوگوں نے گواہی دی کہ مقتول خود سیاسی شخصیات کے حکم پہ فلاں اور فلاں کو جعلی پولیس مقابلے میں پھڑکا چکا ہے۔میں نے پوسٹ ہٹادی۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے مستغیث منہاج القران کے جواد حامد کا انسداد دہشتگردی عدالت میں ریکارڈ شدہ بیان ایک بار پڑھ لیں۔عرصہ تیس سال سے پنجاب میں جاری پولیس گردی اور اس کی سیاسی سرپرست شریفوں کی اشرافیہ کا پول کھل جائے گا۔ساہیوال واقعہ محض ایک آف شوٹ ہے۔بہادر بچوں کے سیاسی والدین کے ہاتھ کاٹ دیں یہ المیے ختم ہوجائیں گے۔