اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظرانڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کے خلاف جاری حکم امتناعی برقرار رکھتے ہوئے آبزرویشن دی ہے ایسا نہیں ہو سکتا کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے ، ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں، سندھ ہائیکورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے چار سطروں کی مبہم پریس ریلیز جاری کی جس سے کتنے ہی قیدیوں کو رہائی ملی۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل ،جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد آمین احمد پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواست گزار راجہ ندیم احمد کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے آئندہ جیل جانے والے نئے قیدیوں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دے کر حکم دیا اگر کسی میں کورونا علامات ہوں یا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو اسے قرنطینہ میں رکھاجائے ،عدالت عظمیٰ نے ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش اور موجود قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور خواتین اور ساٹھ سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دے کر قرار دیا قیدیوں کی رہائی کے ہائیکورٹس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت پر آئندہ سماعت پر بحث کی جائے گی ۔عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے چھ اپریل تک تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے جیلوں میں ڈاکٹروں کی خالی آسامیوں کے معاملے پر بھی جواب طلب کرکے حکم دیا یقینی بنایا جائے کہ کرونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے ۔عدالت نے سوالات کا اطمینان بخش جواب نہ دینے پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کیا ۔چیف جسٹس نے نیاز اللہ نیازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد ہیں، آپ کو قانون کا پتہ ہونا چاہیے ۔ اٹارنی جنرل نے معمولی نوعیت کے مقدمات میں انڈرٹرائل قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا 55 سال سے زائدعمر ، تین سال قید کی سزا اور کمسن انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت دی جائے ۔ کرپشن ، منشیات اور عورتوں و بچوں پرتشدد کے انڈر ٹرائل قیدیوں، سابقہ ریکارڈ یافتہ انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا نہ کیاجائے ۔چیف جسٹس نے کہا کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں، ڈیفنس کا علاقہ ڈاکوؤں کے کنٹرول میں ہے ، وہاں رات کو تین بجے ڈاکو کورونا مریض کے نام پر آتے ہیں، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟، سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا ، کرپشن کرنے والوں کا دھندا لاک ڈاؤن سے بند ہوگیا، کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے ، کرپٹ کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے ، اسے موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا ۔چیف جسٹس نے کہا عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے ، کسی الزام کی پروا نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا ضمانت پر رہا کئے جانے والے قیدی چھوٹے جرائم میں ملوث تھے ۔جسٹس قاضی محمد آمین احمد نے استفسار کیا چھوٹے جرائم سے آپ کی کیا مراد ہے ؟، فوجداری قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟ ، مجرموں کوچھوڑ دیا گیا تو ہمارے پاس اتنی پولیس نہیں کہ انہیں دوبارہ پکڑ سکے ۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر ضابطہ فواجدری کاسیکشن 168 کب اور کہاں اپلائی ہوتا ہے ؟،ایک وکیل کی طرح عدالت میں پیش ہوں، ڈمی کی طرح کھڑے نہ ہوں۔ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا میں قانون کو دیکھ لیتا ہوں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا فیصلہ ہو چکا، اب آپ کیا دیکھیں گے ۔جسٹس قاضی محمد آمین احمد نے کہا جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے قانون کہتاہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے ۔سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کر تے ہوئے قرار دیا بتایا جائے کہ اب تک کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں،ملک میں اس وقت مجموعی طور پر کتنے وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔عدالت نے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو دیے گئے حفاظتی لباس اور کٹس کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔