بادشاہی مسجد کے مختلف حوالوں میں آج کل "نکاحِ مسنونہ "کا اس مسجد میں انعقاد …شادی کی مختلف تقریبات میں ایک اہم اور خوبصورت اضافہ ہے ،جس کو میں ذاتی طور پر نیک شگون اور باعث خیر تصور کرتا ہوں ، اور یوںجامع الترمذی کی روایت ،جوکہ سیّد ہ عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اِعْلِنُوْا ھَذا النّکاح واجعلوہ فی المساجدو اضربوہ بالد فوف ‘‘۔’’نکاح کا اعلان کرو اورنکاح مسجد میںپڑھایا کرو اور دف بجا لیا کرو۔‘‘،کے ارشاد کی تعمیل کی برکات، نئی زندگی کی شروعات کرنے والے جوڑوں کو حاصل ہوجاتی ہیں اور پھر ان کی آمد سے مسجد کا ماحول گلاب وچنپہ و یاسمن سے مہک بھی اُٹھتا ہے ، اگر پچاس سال بعد رواج دوبار ہ لوٹ آتے ہیں ،تو پھر چند دہائیا ں قبل ، بنے سنورے دولہا کو مسجد میں سلام کروانے اور شکرانے کے دو نفل پڑھانے کی یہ رسم… ایک نئی روایت کے ساتھ زیادہ مضبوط اور مؤثر صورت میں سامنے آرہی ہے۔ بہرحال…مسجد ہماری سوسائٹی کا محور اور مدار"Nucleus"تھا ، ہے، اور انشاء اللہ رہے گا ۔ 17اکتوبر2019ء کو برطانوی شہزادہ ولیم اوران کی اہلیہکیٹ مڈلٹننے لاہور کے مختصر دورے کے باوجود بادشاہی مسجد کی زیارت کو یقینی بنایا ،ویسے قبل ازیں، ان کے والد محترم پرنس چارلس اپنی اہلیہ کمیلاپارکر، کے ساتھ 02نومبر2006ء میں جب پاکستان کے دور ے پر آئے، تو بادشاہی مسجد میں ہی کالم نگار کواُن سے ملاقات کا موقع بھی میسر آیا، اور اس موقع پر ’’بین المذاہب مکالمے ‘‘ کااہتمام ،گورنر ہائوس میں ہوا تھا ، مگر اب کے بار یہ اہتمام بادشاہی مسجد کے مین چیمبر میں تھا، جوکہ ایک لائق تحسین امر ہے ، اس موقع پر مذکورہ شاہی جوڑے کے علاوہ خطیب بادشاہی مسجد سیّد عبدالخبیر آزاد ،بشپ سرفراز پیٹر ، رمیش کمار ، عائشہ لغاری ، اظہرعلی عابدی اور چند دیگر شخصیات شریک ہوئے ،عزیزم حافظ سیّد عبدالرازق نے سورئہ المائدہ کی آیت نمبر 48کی تلاوت کی ،جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’اور (اے حبیبؐ!) اتاری ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب (قرآن) سچائی کے ساتھ، تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے (آسمانی) کتاب ہے اور(یہ قرآن) محافظ ہے اس پر تو آپ فیصلہ فرما دیں ان کے درمیان اس سے جو نازل فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور آپؐ نہ پیروی کریں ان کی خواہشات کی اس حق کو چھوڑ کر، جو آپ کے پاس آیاہے ، ہر ایک کے لیے بنائی ہے ہم نے تم میں سے ایک شریعت اور عمل کی راہ ، اور اگر چاہتا اللہ تعالیٰ تو بنا دیتا تم ( سب کو ) ایک ہی اُمت ،لیکن آزمانا چاہتا ہے تمہیں اس چیز میں جو اس نے دی ہے تم کو، تو آگے بڑھنے کی کوشش کرو نیکیوں میں ،اللہ کی طرف ہی لوٹ کر آنا ہے، تم سب نے ،پھر وہ آگاہ کرے گا تمہیں جن باتوں میںتم جھگڑا کرتے تھے ۔‘‘ قرآن پاک کی تلاوت ،بالخصوص شہزادی کیٹ مڈلٹن نے انتہائی عقیدت واحترام سے سماعت کیا ، اس موقع پر تمام مذاہب کے نمائندگان نے اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی اور جملہ حقوق میسر ہیں ۔ شہزادہ ولیم نے عالمگیری بادشاہی مسجد کی خوبصورتی کی تعریف کی اور مذہبی زعما کی خصوصی نشست ،جس میں تمام مذاہب کے نمائندگان موجود تھے کو بھی سراہا ۔ا س موقع پرشاہی جوڑے کو قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ ،بادشاہی مسجد کی تصویر ،چادر اور ’’پیغام پاکستان‘‘ کا بروشر بھی پیش کیا گیا۔ویسے چادر کا یہ خصوصی تحفہ تو شہزادی کیٹ مڈلٹن کے لیے تھا، جنہوں نے پہلے ہی سے اسلامی اور مشرقی اقدار کے پیشِ نظر اپنے سر کو دُوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا، 1991ء میں ان کی ساس لیڈی ڈیانا جب بادشاہی مسجد کے دورے پر آئی تھیں، تو اس وقت بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا سیّد عبدالقادر آزاد نے ان کو باقاعدہ چادر اُڑائی تھی ۔ شاہی جوڑے نے جہاں بادشاہی مسجد کے شکوہ ،اعلیٰ طرزِ تعمیر ،خوبصورت ماحول اور کشادگی کا ذکر کیا ،وہیں اپنے والدین کے گذشتہ دوروں کی یادوں کو بھی تازہ کیا ۔ بادشاہی مسجد ،اوررنگ زیب عالمگیرکے شاہی حکم کے تحت 1673-74میں تعمیر ہوئی ،جس کا احاطہ کم وبیش ایک مربع قطعہ اراضی پر محیط ہے ،جس کا زینہ 15فٹ بلند چبوترے پر واقع ہے ،جس پر پہنچنے کے لیے 22زینے چڑھنے پڑھتے ہیں، جن پر لگا ہوا "کابلی سنگ ابری"سکھوں نے ،اپنے عہد میں اکھاڑ دیا ، ازاں بعد اس کی مرمت ودرست حال میں موجود "سنگِ سرخ" استعمال ہوا ۔ بہر حال مسجد کو تعمیر ہوئے چار صدیاں ہونے کو ہیں لیکن اس کی عظمت وجلالت آج بھی اسی طرح قائم ہے، جیسے چند صدیاں قبل تھی ، اس عظیم تاریخی ورثہ کی اَپ گریڈیشن اور تزئین وآرائش یقینا محکمہ اوقاف کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ،جس کے لیے یہ محکمہ ہمہ وقت مستعد او رسرگرمِ عمل رہتا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر کہ اس عظیم مسجد کا محراب ومنبر ’’اتحاد امت‘‘ کا نمایاں فورم ہے ،جہاں وقتاً فوقتاً مختلف مکاتب فکر اور مذاہب وادیان کی شخصیات باہم مل کر بیٹھتی ہیں، جوکہ موجودہ دور کے بعض انتہا پسندانہ رجحانات کے تدارک کے لیے بہت ضروری ہے، تاہم مسجد کی قدامت کے پیشِ نظر مختلف سرکاری ادارے اگر اس کی "Renovation"کے حوالے سے کار خیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں، تواس کو اچھا شگون ہی سمجھنا چاہیے ،جیسا کہ ممتاز صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نے ،21اکتوبرکو’’دنیا نیوز‘‘کے پروگرام میں جناب وزیر اعظم پاکستان اور جناب وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے مسجد مذکور کے حوالے سے ان خصوصی ترقیاتی منصوبوں کا اپنی گفتگو میں ذکر کیا ، لیکن جس طرح سٹرک بنانا اور عمارت تعمیر کرنا محکمہ مواصلات وتعمیرات کاکام ہے ،جانوروں کی افزائش کے لیے محکمہ لائیو سٹاک اور تعلیمی امور کو دیکھنے کے لیے محکمہ تعلیم ہے ---اگر سٹرکیںبنانے کاکام محکمہ تعلیم کو دیں گے، تو مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں گے ۔بصورت دیگر چاند کی رویت کے حوالے سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے قمری کیلنڈر کاجو حال ہو رہاہے ، ویسا ہی دوسرے معاملات کاہوگا۔ ’’جس کا کام اُسی کو ساجھے ‘‘ کے مصداق مسجد کی ایڈمنسٹریشن اور وقف املاک کا فطری اورانتظامی تعلق محکمہ اوقاف کے ساتھ ہے ، لہٰذا اس کی جملہ ضروریات کو، یہاںکے کلچر اور مذہبی اقدار کی روشنی میں یہی محکمہ زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔ بادشاہی مسجد کو کسی اور محکمے کی تحویل میں دینے کے حوالے سے گذشتہ دور میں بھی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنی تھی ،جس میں بہت سی دیگر تجاویز کے ساتھ، ایک تجویز یہ بھی تھی کہ مسجد کا منبر اوقاف کے پاس رہے ،جبکہ ایڈمنسٹریشن …توا س موقع پر اجلاس میں شریک ایک آفیسر نے حضرت عمرؓ کا یہ قول سنایا تھا کہ ’’ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتی‘‘چنانچہ اس موقع پر معاملہ ٹَل گیا تھا ،اب اس قَضیہ کے لیے جناب وزیر اوقاف ومذہبی امور پنجاب کی سربراہی میںایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بن گئی ہے ، امید ہے اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے ۔