جب ہم میزان عدل اورمیزان عقل پربھارت کے اس دعوے کوتولتے ہیں کہ اس نے 25مئی 2020ء کوجموں کے ضلع کٹھوعہ میں پاکستان کے ایک جاسوس کبوتر کوپکڑلیاہے تو یہ بھارتی فوج کی متعصب مزاجی اوراسکے ذہنی دیوالیہ پن کے سواکچھ بھی نہیں ۔ عین اس وقت جب چینی فوج شوکت وحشمت اورفاتحانہ اندازسے یلغارکرکے مقبوضہ کشمیرکے صوبہ لداخ کے اندر گلوان وادی سمیت کئی علاقوں پرقبضہ کررہی تھی اوربھارت کی گیدڑ فوج چینی فوج کے سامنے تاب جنگ نہ لاکر بری طرح پٹ رہی تھی تواس نے پاکستان سے اڑکر آئے ایک جاسوس کبوتر کی کہانی چھیڑکر دھمال ڈالی ۔چین کے ہاتھوں درگت بننے پر صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے گیدڑبھارتی فوج نے پاکستان سے آئے کبوتر کاقصہ چھیڑا،اور ایک ننھے پرندے کوپابندقفس بناکرمودی کے زرخریدبھارتی میڈیاکوتماشہ لگانے پرمامورکردیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ بے چاری کبوتری کوئی جاسوس نہیں تھی بلکہ اپنے جھنڈسے بچھڑی ،نیل گگن کی فضائوں میں راستہ بھول کرپاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ناروال سے مقبوضہ جموں کے ضلع کٹھوعہ علاقے میں درآئی۔ یہ کبوتری ناروال کے گائوں بگاکے مکین42 سالہ حبیب اللہ کبوتربازکی ہے۔موصوف کاکہناہے کہ اس نے 24مئی 2020ء عید کے دن اپنے پالتوکبوتروں میں سے کچھ کبوترفضامیں اڑائے فضائی سیرکے بعدکبوتروں کایہ جھنڈ واپس لوٹ آیا مگران میں’’گولڈن ‘‘نامی کبوتری نہیں تھی۔وہ بڑاپریشان ہواکیونکہ یہ کبوتری ایک اچھی نسل سے تعلق رکھتی تھی ۔حبیب اللہ کاکہناہے کہ یہ کبوتر گولڈن نسل کہلاتی ہے اور فضامیں اڑان بھرنے کے بعدیہ12سے 13گھنٹے مسلسل اڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس نے علاقے میں دیگرکبوتربازوں کو اپنی مفقودالخرکبوتری کے حوالے سے اطلاع کردی کہ کہیں نظرآئے توبرائے مہربانی مطلع کردیںلیکن اسے اس وقت بڑی حیرانی اوراستعجاب ہوا کہ جب اس کے دوستوں نے اسے بتایاکہ بھارتی ٹی وی پربڑاشورمچاہواہے کہ تمہاری کبوتر ی کوبھارتی فوج کی حراست میں ہے۔ حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ دورجدیدمیں کہ جب ہرایک کے پاس موبائل فون ہوتاہے تو کبوتر باز اپنے کبوتروں کے پنجے میں اپنے فون نمبر کا ٹیگ پہناتے ہیں تاکہ اگر کوئی کبوتر گم ہو جائے تو جسے ملے وہ فون کر کے کبوتر واپس کر سکے۔علیٰ ہذالقیاس اس کبوتر ی کے پنجے میں بھی جو رنگ لگاہے اس پر حبیب اللہ کافون نمبر لکھا ہے۔حبیب اللہ کہتاہے کہ وہ 30 برس سے کبوتر پال رہاہے اور یہ اس کا شوق ہے۔اس کے مطابق فی الوقت اس کے پاس اڑھائی سو کے قریب کبوتر ہیں۔ حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت میری کبوتری واپس کردے اوراسے حراست میں لینے پر پاکستانی عوام سے معافی مانگے۔ وہ کہتاہے کہ پاکستان نے تو بھارت کا ہٹاکٹاپائلٹ ابی نندن کوجرم کرنے کے باوجود واپس بھیج دیا تھا توبھارت بھی میری ننھی اوربے قصور کبوتری کو پورے عزت و احترام کے ساتھ واپس کرے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ایک زمانہ ضرورتھاجسے آپ دورماضی کہتے ہیںکہ جب پیغام رسانی کے لئے پالتو کبوتروں کو باقاعدہ طور پرتربیت دے کر استعمال کیا جاتاتھا۔یہ تربیت یافتہ کبوترنہ صرف دور دراز تک اڑان بھر کر پیغام پہنچانے کا کام کرتے تھے بلکہ وہ گھروں کے اندرگھس کرخطوط رسانی بھی کیاکرتے تھے ۔قرآن مجیدمیں ہدہد کے حوالے سے اسی طرح کاتعارف موجودہے۔ آپ ماضی کے جنگوں کی تاریخ پڑھیں توپتاچلے گاکہ کبوترکو جنگوں کے دوران جاسوسی اور پیغام رسانی کے لئے استعمال کیا جا تا تھا ۔ماضی قریب میںسرد جنگ کی ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جب امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کیلئے کبوتروں کواستعمال کیا تھا ۔ حال ہی میں اس کا دستاویزی انکشاف بھی ہوا ہے کہ کس طرح سی آئی اے نے کبوتر مشن کی ایک مہم کے تحت انتہائی اہمیت کے حامل بعض مقامات کی نشاندہی کے لیے پرندوں سے فوٹوگرافی کروائی تھی۔امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت میں اس وقت بھی ہیرو کہلانے والے ایک کبوتر کی تصویر رکھی گئی ہے جس کا نام’’ صدر ولسن ‘‘رکھا گیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے ایم آئی 14ڈی کے تحت خفیہ کبوتر سروس چلائی تھی جس کے تحت پیراشوٹ کے ذریعے کبوتروں کو یورپ کے مختلف شہروں میں سراغ رسانی کے لیے اتارا گیا تھا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل یا انٹرنیٹ عوام کے ہاتھوں میں نہیں آیا تھا۔لیکن سوال یہ ہے کہ عصر حاضر کی سٹلائیٹ ٹیکنالوجی جس کے ذریعے پوری دنیا کی نگرانی ہورہی ہے توایسے میں کیا کبوتروں کی جاسوسی کی ضرورت باقی رہ گئی ہے؟ عصرموجودہ میں ٹیکنالوجی نے فضاسے زمین اوربرسے بحرتک جو تہلکہ مچادیاہے اسکی کرشمہ سازی سے ایک وسیع وعریض دنیاسمٹ کرایک چھوٹے سے گائوں کی شکل اختیارکرچکی ہے اس گائوں کے جس کونے میں بھی کوئی جنبش ہورہی ہے توآناََفاناََسب پرآشکارہوجاتی ہے توایسے میںجاسوسی کے لئے دورماضی کی طرح کسی جانگسل عمل اور کبوتروں کے استعمال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ایک جن کے اشارہ ابروپربلقیس سیلمان علیہ السلام کے سامنے پیش کی جاتی ہے بلاتشبیہ اسی طرح محض ایک ڈیجٹل کلک پرمشرق ومغرب تک آپ کاپیغام پہنچتاہے اور دنیابھرسے خبریں اسی ایک اسی کلک سے آپ تک پہنچتی ہیں۔ لیکن بھارت کی اس جہالت کاکیاجائے کہ وہ اب بھی کبوتروںکو پاکستانی جاسوس قراردے کراپنے عوام کوگمراہ کرتاہے اور اپنی ناکامیوں کوچھپانے کی کوشش کرتاہے ۔ کوئی عجب نہیں کہ حبیب اللہ کی یہ کبوتری بہت جلد مرغ بسمل بن جائے گی کیونکہ بھارت میں جب مسلمان مرغ بسمل بنے ہوئے ہیں توکبوترکی کیااہمیت ہے ۔ کشمیرکی جنگ بندی لائن پر کشیدگی برقرارہے ۔بھارتی فوج بھاری توپخانے ،آٹلری کابہیمانہ اوروحشیانہ استعمال کررہی ہے۔ جب ایک ننھے اور معصوم پرندے کوجاسوسی کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا جائے تو بھارتی فوج کے اس اخلاق سوزحرکت پرہمیںکوئی استعجاب نہیں بلکہ بھارتیوں کواپنی فوج کی عقل پرماتم کرناچاہئے۔