معزز قارئین!۔ یوں تو، کئی بار ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے نام سے کئی بار جمہورؔ کے ساتھ مذاق ؔ کِیا گیا لیکن، صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں جب ، دو جلا وطن وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے لندن میں 14 مئی 2006ء کو ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ (Charter of Democracy) پر دستخط کئے تو، نہ صِرف پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) بلکہ کئی دوسری سیاسی / مذہبی جماعتوں نے بھی ’’ میثاق جمہوریت‘‘ کو سنجیدگی سے لِیا تھا۔ اُن دِنوں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کی مسلم لیگ (ن) میں اتنی زیادہ اہمیت نہیں تھی لیکن، گذشتہ کئی دِنوں سے جب ، ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی)کے صدر آصف زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف نیوزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ساتھ ’’ میثاق مُعیشت ‘‘ پر سنجیدگی اختیار کی تو، مریم نواز صاحبہ نے اُسے ’’ مذاقِ مُعیشت ‘‘ قرار دِیا ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’میثاق مُعیشت‘‘ کے بارے میںمیرے چچا میاں شہباز شریف کا مختلف مواقع پر الگ مؤقف ہوتا ہے ، اُن کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی رائے‘‘۔ مریم صاحبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ میرے والد صاحب میاں نواز شریف بھی ’’ میثاق مُعیشت‘‘ کے حامی نہیں ہیں ، کیونکہ یہ این آر اوکے مترادف ہے اور اِس کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو کندھا دینا ہوگا‘‘۔ معزز قارئین!۔ دو مختلف خیال سیاسی جماعتوں کے قائدین بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کرنے پر بعض سیاسی مبصرین نے اِسے ایک ’’ غیر فطری‘‘ سیاسی عمل قرار دِیا تھا۔میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے تو، ’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ کو ہی ایک مذاق ؔ قرار دِیا تھا ۔ اُس نظم کے چار شعر یوں تھے … بہہ کے لندن دے محل دو محلیاں وِچّ ، پاکستانیاں نال مذاق کردے! قتل کر کے آپ جمہوریت نُوں ، جمہوریت دا میثاق کردے! …O… پھڑے جان ، تے معافی منگ لیندے ، نیویں ہوجاندے ، پیرس پے جاندے! مِلے کُرسی تے بہن دا ، جے موقع ، ظلم لوکاں ، تے وانگ خناق کردے! …O… رائے وِنڈ دے محل چ ، رہن والے ، سرے محل تے جا ، دربان لگیّ! کوئی شرم وِی نئیں کردے ، لوڑ وند جدوں ، اِتفاق کردے! …O… بھولے بھالے ، لوکاں نُوں ، پھاہ لیندے ، قومی دولت ایہہ لَے کے نس جاندے! لٹّ مار دے ، گُرو گھنٹال دوویں، کردے کمّ ، جہیڑا قزاق کردے! …O… معزز قارئین!۔ مَیں لمبی بات نہیں کروں گا کہ ’’ کِس طرح جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر سکندر مرزا اور اُن کے بعد صدر جنرل محمد ایوب خان کے مارشلائی دَور میں 8 سال سے زیادہ اُن کی نوکری کی اور ’’بنیادی جمہوریت ‘‘کے نظام کو فروغ دِیا ،جِس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر عاقل اور بالغ شخص کو ووٹ سے محروم کر کے صِرف 80 ہزار ارکانِ بنیادی جمہوریت کو ووٹ دینے کا حق دِیا گیا تھا؟۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو اپنی چیئرمین شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو، اُس کے چار راہنما اصولوں میں سے ایک اصول تھا ۔’’ جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ لیکن، بھٹو صاحب جب ، تک حیات رہے اُنہوں نے اپنی پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ تمام عہدوں پر بھٹو صاحب ، اُن کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو تمام عہدوں پر نامزدگیاں کرتے رہے؟۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے وزیراعظم بھٹو کو برطرف کر کے حکومت پر قبضہ کِیا تو، جنابِ بھٹو نے قصور کے نواب محمد احمدخان کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے جیل جانے سے پہلے اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک ؔچیئرپرسن نامزد کردِیا ، حالانکہ پارٹی کے اساسی دستور میں شریک ؔچیئرپرسن کا کوئی عہدہ ہی نہیں تھا؟۔ پھر کیا ہُوا ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 33 ارکان کا اجلاس طلب کر کے اپنی والدۂ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے خُود چیئرپرسن منتخب ہوگئیں۔ قبل ازیں 18 دسمبر1987ء کو جناب آصف علی زرداری کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی ۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کردِیا گیا۔ یہ بات "On Record" ہے کہ ’’ اپنی زندگی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ’’مجازی خُدا ‘‘ کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا‘‘۔محترمہ کے قتل کے بعد جنابِ آصف زرداری نے ’’مقتولہ‘‘ کی برآمدہ وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو بھٹوؔ کا خطاب دے کر پارٹی کا صدر نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت ’’ شریک چیئرپرسن‘‘ بن گئے۔ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے مطابق صِرف جنابِ آصف زرداری کی صدارت میں ( مخدوم امین فہیم کی یادگار ) انتخابی نشان ’’تیر‘‘ (Arrow) ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) نے انتخابات میں حصہ لِیا۔ جناب آصف زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شِپ میں ( محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار ) انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ (Sword) کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دِی تھی۔ اِس وقت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں جنابِ آصف زرداری کی صدارت میں ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے منتخب ارکان ہی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ بلاول بھٹو بھی اِسی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہُوئے تھے ۔ اب صُورت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ساتھ ’’ میثاقِ مُعیشت‘‘ کرنا جنابِ آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کی مجبوری ہے ۔ اِس مجبوری نے میاں شہباز شریف کو ’’ میثاقِ مُعیشت‘‘ کا علمبردار بننے پر مجبور کردِیا ہے ۔ سزا یافتہ میاں نواز شریف ، کا سیاسی میدان میں اُترنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے سابقہ صدارتی امیدوار امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کے رحم و کرم پر ہیں ۔ اب مسلم لیگ (ن) کے ’’نیمِ دروں، نیمِ بروں ‘‘قائدین اور کارکنان اب ’’تیری آواز ، میری آواز! مریم نواز ، مریم نواز‘‘ کا نعرہ لگانے سے ہچکچا رہے ہیں لیکن، اِس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ’’ واقعی مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی اور جنابِ آصف زرداری کے چاہنے والوں کی ’’ میثاقِ مُعیشت‘‘ سے مستفید ہوسکیں گے؟‘‘اور کیا واقعی وزیراعظم عمران خان عوام کی اِن دو مسترد کردہ پارٹیوں سے نئے سرے سے دوستی کرنے پر راضی ہو جائیں گے؟۔ معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ نے ’’ اجتہاد‘‘ کا حق مسلمان مُلک کی منتخب پارلیمنٹ کو دِیا تھا ۔ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ۔ ’’ اتا تُرک‘‘ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی صدارت میں تُرکیہ کی ’’Grand National Assembly‘‘ نے اجتہاد ؔکا حق استعمال کر کے ہی ۔خلافت ؔکا ’’ناکارہ ادارہ ‘‘۔ ختم کردِیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں قومی اسمبلی نے بھی۔ 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دِیا تھا۔سوال یہ ہے کہ ’’ اگر پارلیمنٹ ( قومی اسمبلی اور سینٹ )کے ارکان کثرت رائے سے ’’ مذاقِ مُعیشت‘‘ کو کثرت رائے سے منظور کرلیں تو، کیا ہوگا؟۔ کیا سابق صدر آصف زرداری، اُن کی ہمشیرہ فریال تالپوپر ’’جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیسز ‘‘ میں ملوث دوسرے ’’قائدین ‘‘ ( ملزمان) کو با عزت بری ہونے کا موقع مِل جائے گا ؟اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور اُن کے متعلقین کو بھی؟۔ پھر 28 جولائی 2017ء کو (اُن دِنوں ) سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے جو ’’عدالتی انقلاب‘‘ کا آغاز کِیا تھا ، اُس کا کیا ہوگا؟۔ بہرحال مَیں اپنے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی حوصلہ افزائی کے لئے اُن کے دو شعر شائع کر رہا ہُوں… خُوب ہی مہکا ہوا ہے ، گُلستانِ مُک مُکا! مِلّتِ شُرفا نے پایا، ارمغانِ مُک مُکا! …O… باعثِ خُوشنُودیء سجّادگانِ مُک مُکا! عرش پر بیٹھے ہوئے ہیں ، حاکمانِ ،مُک مُکا!