ملک کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں سے ہلاکتوں اور املاک کو نقصان کی اطلاعات اس لحاظ سے باعث تشویش ہیں کہ موسمی مسائل سے نمٹنے میں متعلقہ ادارے بالکل ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ چند روزہ بارشوں سے 11افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ سندھ کے کئی شہروں میں سیلاب کے خطرے کے باعث انسانوں‘ مویشیوں اور فصلوں کو خطرات کا اندیشہ ہے۔ چترال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ کچھ روز قبل چترال اور اس سے پہلے نیلم ویلی میں سیلابی پانی سے کافی نقصان ہو چکاہے۔ خیبر پختونخواہ میں ایک سکول‘5رہائشی مکانات گرے۔ کئی پہاڑی علاقوںمیں سڑکیں بند ہیں اور پل منہ زور پانیوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ پاکستان ایسا خطہ ہے کہ جہاں فطرت کے سارے موسم آتے ہیں۔ گرمی‘ سردی‘ بہار‘ خزاں اور برسات سے انسان ہزاروں برسوں سے فائدہ اور نقصان اٹھاتا آ رہا ہے۔ جس طرح ایک آسودہ حال شخص اچھے مکان اور گرم ملبوس کے سبب سردی کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر اس کے حسن سے فیضیاب ہو سکتا ہے‘ اسی طرح ایک مفلوک الحال یا سائنسی فکر سے محروم سماج میں سردیاں کڑی آزمائش ثابت ہوتی ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں بارشوں کی کمی کے باعث آبپاشی اور پینے کے لئے پانی کا حصول مشکل کام ہے۔ خود پاکستان کے بعض پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں پانی نایاب ہے۔ جب زیر زمین پانی کے وسائل کم ہونے لگیں یا ان سے استفادہ کی گنجائش محدود ہو تو ایسے وقت بارشی پانی بڑی نعمت ہوتا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں صرف گرمیوں میں بارشیں نہیں برستیں بلکہ سردیوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جولائی سے ستمبر کے دوران بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے اٹھنے والا بارشی سلسلہ پاکستان کے کم بلند میدانوں پر برستا ہے۔ پاکستان میں جولائی اگست شدید بارشوں کا موسم ہے۔سال بھر میں ہونے والی بارشوں کا 60فیصد حصہ اسی مدت کے دوران برستا ہے۔ عموماً ان بارشوں کا قبل از وقت علم ہو جاتا ہے اور اس پانی کو بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے آبپاشی‘ پن بجلی اور پینے کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں خریف کی پیداوار کا انحصار اس مون سون کے پانی پر ہوتا ہے۔ امریکی بیورو آف ری کلیمشن کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ جنوب مشرقی پنجاب کا سوفیصد انحصار بارشی پانی پر ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی ایسے کئی علاقے ہیں جہاں آب پاشی کے لئے صرف بارشی پانی پر تکیہ ہوتا ہے۔ اب ہر سال اگر مون سون کے پانی سے فوائد حاصل ہونے کی بجائے مسلسل سیلاب‘ تباہی اور ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوں تو سمجھ لینا چاہیے پاکستان کی سرکاری مشینری نااہل ہے۔ کھلے علاقوں میں بارشیں سیلاب کی شکل میں فصلوں کو بہا لے جاتی ہیں۔2010ء سے 2014ء کے دوران ہر سال آنے والے سیلاب نے سالانہ 800ارب روپے کا نقصان کیا۔ یہ نقصان 1400ارب روپے سے بھاشا ڈیم بنا کر روکا جا سکتا تھا۔ بارشی پانی کو ڈیموں‘ جھیلوں اور تالابوں میں جمع کرنا مشکل نہیں۔ نشیبی علاقوں میں ایسے ذخیرے آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ محکمہ جنگلات ‘انہار اور وقف املاک کی لاکھوں ایکڑ اراضی کسی کام میں نہیں لائی جا رہی۔ ان زمینوں پر بااثر افراد قبضے کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں بہت سی سرکاری اراضی ایسے ہی طاقتور افراد کے تسلط میں ہے۔ تقریباً ہر علاقے میں برساتی نالے اور پانی کی گزرگاہیں موجود ہیں۔ بڑھتی آبادی کا معاملہ زیادہ تشویش ناک نہیں بلکہ قانون شکنی اصل مسئلہ ہے۔ برساتی نالوں کو بڑی بے رحمی سے ہائوسنگ سکیموں کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ پانی کی قدرتی نکاسی کے اس نظام کو بھی قبضہ مافیا کی دست درازی کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں برساتی نالے گندے نالوں کی شکل میں بہہ رہے ہیں وہاں بھی کناروں پر تجاوزات کر لی گئی ہیں۔ یہ سب مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ ان تجاوزات کی وجہ سے نالوں میں بہائو کی مقدار متاثر ہوتی ہے اور زیادہ بارش کی صورت میں پانی کناروں سے باہر ابل پڑتا ہے۔ بارشی پانی سے شہری علاقوں میں نقصان کی ایک وجہ ٹائون پلاننگ اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی نہ ہوناہے۔ بڑے بڑے رئیل اسٹیٹ مالکان زرعی زمینیں خریدتے ہیں۔ خریدی گئی اراضی کا ایک ایک انچ حساب میں لایا جاتا ہے۔ دستاویزات میں رہائشیوں کے لئے تفریح‘ عبادت گاہ‘ کھیلوں کے میدان اور سماجی بہبود کے مقصد سے پلاٹ مختص کئے جاتے ہیں۔ سڑکوں کی پیمائش‘ گرین بیلٹ اور نکاسی آب کا شاندار نظام دکھایا جاتا ہے۔ وقت گزرتا ہے تو نہ کھیلوں کا میدان رہتا ہے نہ گرین بیلٹ ہوتی ہے‘ سڑکوں کی چوڑائی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور نکاسی آب کا کشادہ نظام سکڑتا چلا جاتا ہے۔ اس ہیر پھیر پر کوئی ادارہ کارروائی نہیں کرتا۔ کارروائی ہو بھی تو اتنی معمولی ہوتی ہے کہ متاثرین کو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ لاہور شہر میں ہر برس برسات کے موسم میں لکشمی چوک اور اس کے ملحقہ علاقے کو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ کراچی کی بہت سی آبادیاں ہر سال ڈوب جاتی ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس مسئلے سے جوں توں نمٹتے ہیں۔ گھریلو سامان خراب ہوجاتا ہے۔ دیواریں اور مکان گرتے ہیں‘ جانی نقصان ہوتا ہے‘ بیماریاں پھوٹ نکلتی ہیں۔ حکومت‘ سرکاری ادارے اور متعلقہ حکام کی تصاویر بیانات کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ ہر سال ایک ہی مسئلہ‘ ایک جیسی تصاویر اور ایک جیسے بیانات۔ کوئی یہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں کہ سالانہ 500ارب روپے کا پانی اور قیمتی جانیں آخر کس کی غفلت کے باعث ضائع ہو رہی ہیں۔