17برس کی جارحیت اورتقریباََایک کھرب ڈالرپھونکنے اورہزیمت پرہزیمت اٹھانے کے بعد بالآخرامریکہ اس نتیجے پرپہنچاکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بغیرافغانستان سے نکلنے کاکوئی راستہ نہیں ہے۔حال ہی میںاس کااعتراف پینٹاگون اورافغانستان میں امریکی کمانڈرجنرل نکلسن نے کیاہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فسادی طینت اورفتنہ پرورذہنیت کاحامل بھارت ایساکرنے دے گاجبکہ وہ خطے میں فساد کی جڑہے۔بھارت چاہتاہے کہ امریکہ افغانستان میں الجھتاہی رہے تاکہ اس کے ناپاک عزائم پرضرب نہ پڑسکے ۔بھارت افغانستان کی سیاست پر بھی اثر انداز ہونے کی ناکام ونامرادکوشش کر رہا ہے۔بھارت کی عملی مداخلت کے باعث پہلے کرزائی اوراب اشرف غنی انتظامیہ کو پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ جب بھی پاکستان اخوت اسلامی کے جملہ تقاضوں کوبروئے کارلاکرافغانستان سے تعلقات کی بحالی کی تگ ودوکررہاہے توبھارت اس راہ میں روڑے اٹکاتاہے ۔افغانستان چونکہ پاکستان کا ہمسایہ برادرمسلمان ملک ہے اس لئے اسے بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ سیاسی اور تذویراتی پالیسی ترتیب دینی چاہئے جودوررس اوردیرپاثابت ہوگی ۔پاکستان امریکہ کو متنبہہ کرتاہے کہ بھا رت اس خطے میں تھانیداری کے جوخواب دیکھ رہاہے پاکستان کو کسی بھی طورپرقبول نہیں۔پاکستان اس امرکوبلیغ اندازمیں باربارواضح کرچکاہے کہ کسی بھی لحاظ سے افغانستان سے کوئی رشتہ وناطہ نہ ہونے کے باوجود بھارت دن کے اجالے میں ایساخواب دیکھ رہاہے جوکبھی شرمندہ تعبیرنہ ہوسکے گا۔ پاکستان اور افغانستان دو برادر ہمسایہ مسلمان ممالک ہیں جو مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے نسلی تانے بانے بھی آپس میں ملتے ہیں اور لسانی مماثلت بھی موجود ہے ۔انہی رشتوں ناطوں کے تقاضوں پرپورااترتے ہوئے افغانستان پرسوویت یونین کی جارحیت کے بعد پاکستان تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کاذمہ داری کے ساتھ میزبانی کرتارہا۔اِن تمام رشتوں ناطوں کے باوجود یہ دونوں اپنی جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور الگ الگ اکائی کے طور پر موجود ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد تقریبا ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل ہے جو دونوں ممالک کی کسی دوسرے ملک سے طویل ترین سرحد ہے یعنی نہ تو افغانستان کی کسی اور پڑوسی ملک کے ساتھ اتنی طویل سرحد ہے اور نہ پاکستان کی۔ دونوں برادرمسلم ممالک بڑی گہرائی سے اسلام کے پیرو کار ہیں یوں دونوں کے آپس میں مثالی تعلقات ہونے چاہئیں تھے لیکن افسوس 2001ء کے بعد ایسا نہیں ہونے نہیں دیاگیااوراس میں بھارت کی چانکیہ سیاست کارفرماہے۔ 2001 ء میںافغانستان پرامریکی جارحیت کے بعد پہلی بار امریکی اور نیٹو افواج کے شیلٹر میں بھارت کو افغانستان میں زمینی طور پر موجود رہنے کا موقع ملا۔اور پہلی بار بھارت نے اپنی پالیسی محتاط اور گریز کی پالیسی کے بجائے مواقع کی تخلیق اور افغانستان میں اس وقت پشت پر کھڑے امریکہ اور پورے مغرب کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، خطے میں اثرو نفوذ حاصل کرنے،سکیورٹی معاملات میں مداخلت، اور جیو پالیٹکس میں فعال ہونے جیسے خطوط پر مرتب کرنے کی کوشش کی۔اس کوشش میں سب سے اول مقصدیہ تھاکہ امریکی آشیربادکے ساتھ بھارت افغانستان میں قدم جمائے اورخود کو قائم ودائم رکھے۔اس حوالے سے بھارتی چانکیہ پالیسی سازوں نے افغانستان میں انفرااسٹرکچرکی بحالی کے نام پراپنے عمل دخل کا آغاز کیا۔دہلی نے افغانستان میں انفرا اسٹرکچر کی بحالی، بڑے معاشی منصوبے، سماجی سطح پر استعداد کار بڑھانے، مواصلات کے شعبہ میں سرمایہ کاری، بھارتی سٹیل اتھارٹی کی طرف سے ایک کنسوریشم کا قیام، بجلی گھروں کی تعمیر کے علاوہ افغان پولیس اور سکیورٹی فورسز کی تربیت اور تعاون کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ جن کے ذریعہ بھارت نے افغان اشرافیہ سے ایک بہتر تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی سے کئی مقاصدحاصل کرنے کی کوششیں کررہاہے جن میں سے اولاََیہ کہ وہ پاکستان کوباورکراناچاہتاہے کہ بھارت ہی اس خطے کی ایک برتر طاقت ہے۔ثانیاًوہ عالمی طاقتوں کے روبرو اپنا ایک مخصوص مقام چاہتا ہے جو جیو پالٹکس میں اسے ایک کردار دلوا سکے۔ثالثاََ خطے کے ہمسایہ ممالک وسط ایشیااور بحرہ ہند کی پٹی پر واقع ممالک سے تعلقات میں ایک توازن چاہتا ہے۔بھارت کے چانکیہ پالیسی سازوں نے افغان پالیسی میں جو اہداف مقرر کئے تھے انکے پیراڈکسز اپنے تزو یراتی مقاصد کا حصول، عالمی سیاست میں ایک ترقی پسند اور پر امن ملک کے تاثر کا قیام اور سب سے اہم پاکستان کے افغانستان پر اثر رسوخ کو غیر فعال حد تک محدود کر نا تھا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاشی اور کچھ سیاسی کامیابیوں کے ساتھ افغانستان میں اپنی زمینی موجودگی حاصل کر لینے کے بعد پاکستان مخالف پروپیگنڈا ،اورپاکستان میں تخریب کاری کرانے کے بیس قائم کرنے میں تو بھارت نے ضرور کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ آج تک بھارت کو عالمی افغان پالیسی کے حوالے سے کسی بھی بیٹھک کا حصہ نہیں بنا یا گیا اور نہ ہی کسی فیصلہ سازی کا بھارت حصہ بن سکا۔جبکہ خطے کے دواہم ممالک چین اورروس نے بھی بھارت کی کوششوں کوابھی تک تسلیم نہیں کیا۔بھارت شنگھائی تنظیم کارکن ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کی باگ ڈورپر چائنہ کے ہاتھ میںہے، اس وقت بھارت چائنہ کے ساتھ سخت سرحدی کشیدگی پیدا کر چکا ہے توایسے میں بھارت کے لئے خطے میں اپنی نمبرداری، تزویراتی مفاد اور تحفظ کی یقین دہانی اور امریکی مفاد کے تحفظ کے لئے اپنی دستیابی اور پاکستان پر کسی طرح کا دبائو ڈالنے کو یقینی بنانا کس قدر آسان ہو گا؟ ایک اہم سوا ل ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کوشش بسیارکے باوجود بھارت کو ٹھوس تزویراتی کامیابی نہیں مل سکی۔کئی محاذوں پر بھارتی تخمینے نا کام ثابت ہوئے۔اسکے اہداف دھرے کے دھرے رہ گئے نہ تو طالبان کو خاموش کروایا جا سکا نہ ہی پاکستان کی ایک فعال مداخلت کے رول کے آگے بند با ندھا جا سکا۔ حقائق کے پیش نظر بھارت کے عالمی عزائم کی راہ میں جو بڑی رکاوٹیں ہیں ان کا تعلق اسکے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ چلی آرہی مسلسل دشمنی ،کشمیریوں پرزہرناک مظالم ڈھانے،کئی بھارتی ریاستوں میںدرجنوں علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کی سرگرمیوں،اقلیتوں پرقیامتیں ڈھانے جیسے اندرونی بحرانوں اور نمو پاتی معیشت کے باوجود خوفناک غربت نے بھارت کو عالمی منظر نامے پر بری طرح ناکام کیا ہے۔اس صورتحال میں بھارت کا عالمی منظر نامے میں کردار ادا کرنا ،ناممکن ہو چکا ہے۔اس پر مستزادیہ کہ افغانستان کے حوالے سے اسکی ساری کوششوں کے بعد بھی جو عنصر اسکے حدف کے حصول میں رکاوٹ بنا ہوا ہے وہ افغانستان میں طالبان کا بڑھتا ہوااثرونفوذہے جو کسی طور سے بھی بھارتی فساد کے حق میں نہیں ہے۔ افغانستان جسکے اندر طالبان جن کے دل میں بھارت کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے ایک بار پھر اپنا وجود ایک سخت ردعمل کیساتھ ثابت کر رہے ہیں ،جسکے نتیجے میں امریکہ کو یہ اعلانات کرناپڑرہے ہیں کہ طالبان کیساتھ براہ راست مذاکرات کے سواکوئی چارہ باقی نہیں بچا ہے۔ بہرکیف!اپنے طورپربھارت بڑی کوششیں کرتا رہاہے اوروہ اپنی وفاداری کوہرسطح پر ظاہر کرتا رہا۔ تاکہ امریکہ اسے افغانستان میں بھرپور کردار سونپ دے اوراس طرح وہ افغانستان سے پاکستان تک اپناشرپھیلاسکے ۔دسمبر2017ء میں ہلمند کے مختلف علاقوں میں قائم امریکی فوجی کیمپوں میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس اور بھارتی فوج کے بہت سے اہلکار امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف آپریشن میں شامل رہے۔بھارتی فوجیوں کی ہلمند کے امریکی کیمپوں میں موجودگی کی بازگشت ہندوستان کے کچھ اخبارات میں بھی سنائی دی ہے۔ اس سے قبل جولائی 2017ء میں بھارت کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی سفارتی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے امن مشن کی فوج میں مذکورہ بھارتی فوجیوں کو شامل کر کے بھارت کو وہاں قدم جمانے کا موقع دیا جائے۔