تاجکستان کے وزیر دفاع شیر علی میرزو نے دورہ پاکستان کے دوران سیاسی و عسکری قیادت سے اہم ملاقاتیں کیں۔جن میں افغان سرحد و سکیورٹی کے امور زیر بحث آئے۔ صدر پاکستان عارف علوی نے کہا: کہ بھارت افغان سرزمین استعمال کر کے پاکستان کے خلاف ہائبرڈ جنگ میں ملوث ہے۔ افغانستان میں 20 برس بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے بھر پور کوششیں کیں۔ کبھی داعش کے دہشت گردوں کی مالی مدد کر کے انہیں پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے بھیجا گیا تو کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان قائم کر کے اس میں دنیا بھر سے انتہا پسندوں کو اکٹھا کرکے ان کی مالی معاونت کی جاتی اور انہیں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔جب پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کو کالعدم قرار دیا ،تو بھارت نے افغان صدر اشرف غنی سے کہہ کر انہیں افغانستان کے صوبہ کنٹر میں پناہ دی۔ اب بھی چھ سے سات ہزار کے قریب دہشت گرد جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے ،وہ بھارتی ایجنسی(را) کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ پاکستان نے عالمی برادری کو دہشت گردوں کو (را) کی فنڈنگ کے ثبوت فراہم کئے لیکن عالمی برادری نے بھی اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ چند ہفتے قبل لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کے پیچھے بھی (را) موجود تھی۔ شواہد کے باوجود عالمی برادری نے بھارت کی مذمت تک نہیں کی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے چند دنوں میں ملک کے طول و عرض پر قبضہ کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان،چین، ایران ‘ازبکستان اور روس کے ساتھ ملنے والی افغان سرحدوں پر بھی طالبان اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔ جس کے بعد بھارت نے بندر کی طرح بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔ کبھی ایک ملک کے پائوں پڑتا ہے،تو کبھی دوسرے ملک کے تلوے چاٹتا ہے کیونکہ بھارت کو نہ صرف افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے بلکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے اسے جو سہولت میسر تھی، وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ پاک افغان سرحد کے قریب بھارت کے 150کے قریب قونصل خانے تھے، اس نے جہاں پر دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی تھی۔ لیکن طالبان کے کنٹرول کے بعد نہ صرف بھارتی سازشیں دم توڑ گئی ہیں بلکہ اس کے پروردہ دہشت گرد بھی اب دم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔ بھارت ایک طرف تو افغان طالبان کے ساتھ رابطے استوار کرنے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔دوسری طرف بھارتی سفیر جے شنکر نے روس اور ایران کے ہنگامی دورے کر کے جلال آباد اور قندھار کے قونصلیٹ کی تالابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مدد طلب کی ہے ۔اس کے علاوہ جب بھارت اپنے سفارتی عملے کو یہاں سے نکالنے کے لئے آیا تو جہازوں میں اسلحہ لا کر افغان حکومت کو دیا۔جس کا مقصد افغانستان میں امن و امان کوتہہ و بالا کرنا تھا ۔ گزشتہ روز بھارت میںغنی حکومت کے سفیر فرید مامونزائی نے کہا ہے: کہ افغان انٹرا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں طالبان پر بمباری کے لئے بھارتی فضائیہ کی ضرورت پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ: بھارتی فضائیہ کی مدد سے طالبان کو شکست دینا ہو گی۔ باقی ملکوں کی طرح بھارت بھی اگر خطے میں امن کا خواہاں ہوتا تو وہ طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دیتا۔ ماضی کی غلطیوں کی معافی تلافی لیتا لیکن ہندو بنیا حقیقت میں امن کا حامی نہیں۔ وہ اب بھی فاتح کی بجائے شکست خوردہ عناصر کو تھپکی دینے سے باز نہیں آ رہا۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ ایران‘ شمالی اتحاد ‘ ہزارہ ‘ تاجک اور ازبک سمیت دیگر قبائل سے ہاتھ ملا کر افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر قتل و غارت شروع کروائے۔ اس صورت میں بھارت کے سات ہزار کے قریب دہشت گردوں اور باقی مفادات کا تحفظ ہو سکتا ہے۔بصورت دیگر امریکہ کی طرح اب بھارت کو بھی بوریا بستر گول کر کے وہاں سے کوچ کرنا ہو گا ۔ طالبان نے گزشتہ روز سپین بولدک کا کنٹرول سنبھالا تو افغان انٹیلی جنس کے دفتر سے تین ارب روپے کی پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ پاکستان میںتخریبی کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کو بطور معاوضہ ادا کی جانی تھی۔کیونکہ ماضی میں دہشت گروں کو ہمیشہ یہی سے پیسہ بھیجا جاتا تھا ۔پاک افغان بارڈر پر قبضہ غنی حکومت کے لئے سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ یہاں سے یومیہ 900سے 1000مال بردار ٹرک اور ٹینکر گزرتے تھے جبکہ ساٹھ سے ستر ہزار افراد کی آمدورفت بھی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ نیٹو فورسز کی بڑے پیمانے پر سپلائی بھی یہاں سے ہوتی تھی۔ اس بارڈر پر طالبان کے قبضے سے کابل حکومت کی معاشی تدفین کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ یہاں سے اب روزانہ کی بنیاد پر طالبان ریونیو حاصل کریں گے بلکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات بھی قائم کریں گے‘ پاکستان افغانستان کے لیے ایک امن کانفرنس کی 17سے 19جولائی تک میزبانی کر رہا ہے۔ امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ افغان طالبان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے میں کوشاں ہیں۔ برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان میں حکومت بنائی تو ہم ان کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ برطانوی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ :عالمی برادری کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا اشرف غنی بھی طالبان سے مل کر ملکی استحکام کے لئے کام کریں تاکہ خطے میں امن کی فضا قائم ہو سکے۔